26/جنوری کا فلسفہ……….اور مسلمان : محمد شعیب غازی ؔ

محمد شعیب غازی ؔ
استاذ جامعہ سبیل الفلاح ہرہ موڑ ، سردھنہ ، میرٹھ
1947ء میں مذہب کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم عمل میں آئی ، جس کے نتیجہ میں ہند و پاک کے لوگوں کی نقلِ مکانی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا ، جس کے دوران نسلِ مسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ، ان کے کارواں لوٹے گیے ۔ ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی ، انہیں تبدیلئ مذہب پر مجبور کیا گیا ، بالجبر ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے گیے ۔ یہ تمام واقعات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ، ان کو پڑھیں تو آنکھیں اشک بار بل کہ لہو بار ہوجائیں ، وہی مناظر اگر ذہن کے کینوس پر ابھر آئیں تو اس نظارہ سے انسانی روح کانپ اٹھے ۔
یوں تو بھارت کو برطانیہ سے 15/ اگست 1947ء میں ہی آزادی مل گئی تھی ۔ تاہم ، آئین کی بالادستی 26/ جنوری 1950 ء میں قائم ہوئی ہے ۔ سرکاری سطح پر اسی کو جمہوریت کے اظہار کا دن قرار دیا جاتاہے ، ہر برس 26/ جنوری کو ملک بھر میں جشنِ جمہوریت کا انعقاد کیاجاتاہے ، فرحت و شادمانی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ آج 26/ جنوری ہے تو آئیے ! ہم اس پر مسرت موقع پر بصمیم قلب عہد کرتے ہیں کہ ہندوستان کے تابناک مستقبل کے لیے اپنے آباء و اجداد کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں گے ۔
دسمبر 1929ء میں لاہور شہر میں پنڈت جواہر لال نہروکی زیرِ صدارت کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا تھا ، جس میں اتفاقِ رائے سے یہ قرار داد منظور کی گئی تھی کہ اہلِ فرنگ 26/ جنوری 1930ء تک ہندوستان کا اقتدارِ اعلیٰ ہندوستانیوں کے سپرد کریں اور اس سرزمین سے انخلاء کا راستہ اپنائیں ۔ بصورت دیگر ان سے شدید مزاحمت کی جائے گی اورایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پرچم لہرایا جائے گا ۔ فرنگیوں نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا ۔چناں چہ کانگریس اور ملی جماعتوں نے 26/ جنوری 1930ء میں مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں غلامیت کی زنجیریں توڑنے کا عہد اور ایک خود مختار ریاست کا اعلان کر دیا ۔ 1947ء تک اس کو یومِ جمہوریہ کی شکل میں منایا جاتا رہا ۔ اس کے بعد نو آبادیاتی حکومت کے خلاف عوامی سرگرمی زور پکڑتی گئی ۔
یہ جنگ کئی دہائیوں میں کامیابی کا سفر طے کرتے ہوئے انیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں داخل ہوچکی تھی ۔ وہاں سخت معرکہ آرائی ، ہندو مسلم اتحاد نے فرنگیوں کے اقتدار کا تختہ الٹ دیاتھا ، ان سے صدیوں پرانی ریاست چھین لی تھی ، فرنگی جگر دوز سانحہ کی تاب نہ لاسکے اور علمِ ازل میں لکھی ہوئی حریت کی گھڑی بھی آ پہنچی تھی ۔ وہ ایک ایسی شب تھی کہ جب سارا جہاں میٹھی نیند کی آغوش میں تھا اور شکست خوردہ ایسٹ انڈیا کمپنی راہِ فرار کی متلاشی تھی ۔ کسے پتہ تھا کہ رونما ہونے والا یہ منظر تاریخ میں ناکامی کا استعارہ بن کر کھٹک رہا تھا ۔ 1947ء کی 14/ ، 15/ اگست کی درمیانی شب ، آئین ساز اسمبلی کا اجلاس برپا کیے ہوئے تھی ، وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سر پر ہندوستان کے گورنر جنرل کا تاج سجا رہی تھی ، اسی کے ہاتھوں جواہر لال نہرو کو اولین وزارتِ عظمی کا حلف دلا رہی تھی ، دوسرے اراکین کی وزراء کی حیثیت سے تاج پوشی کر رہی تھی ۔ وہیں قومِ انگریز کے آہنی پنجوں سے ہندوستانیوں کو عارضی رہائی کے ملنے پر صبحِ نو خوشی کے شادیانے بجا رہی تھی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی سامراج کے آمرانہ طرزِ عمل کےخلاف لڑی جانے والی پہلی جنگ میں مسلم قوم ، خاص طور پر مسلم علماء صف آرا ہوئے ؛ نواب سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان شہید ، شاہ ولی اللہ دہلوی ، سید احمد شہید ، مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا محمد علی جوہرؔ ، مولانا ابو الکلام آزادؔ ، مولانا حسرت موہانیؔ ، مولانا حسین احمد مدنی ، جنرل شاہ نواز ، سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خانؔ اور عبد القیوم انصاریؔ اور دوسرے مجاہدین نے حریت کی تحریک کو جلا بخشنے میں نمایاں کردار نبھایا تھا ۔ گزرتے وقت کے ساتھ مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو ، سردار پٹیل ، نیتاجی سبھاش چندر بوس اور دیگر برادرانِ وطن نےبھی مسلم قوم کے ساتھ شانہ سے شانہ ملایا اور سخت جاں معرکہ میں کود پڑے ۔ اس طویل مدتی جنگ میں جو قربانیاں دی گئیں ہیں وہ ایک مکمل تاریخی دستاویز ہیں ، جس کے بغیر تاریخِ ہند کا باب ادھورا رہےگا ۔ منزل تک پہنچنے میں کتنی ہی بھوک ، پیاس ، مصیبت اور بے شمار مسائل سے دوچار ہونا پڑا ! کتنے ہی جسم گولیوں سے زخمی ہوگئے ! لاتعداد حریت پسندوں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا ! یہ تصور ہی دل کو دہلانے کے لیے کافی ہے !
ملک آزاد ہوا تو تمام باشندے فرحاں و شادماں تھے ۔مجاہدین ، دانشورانِ قوم اور اہلِ سیاست جیسے کل گذشتہ منصوبہ بندیوں اور جنگی مہمات کے دوران سر جوڑ کر بیٹھتے تھے ، آج بھی آئندہ کل کے لیے یکجا تھے اور جمہوریت کو رواج دینےکے لیےایک لائحۂ عمل ترتیب دے رہےتھے ، ان کی شرکت کا راز ، قدیم گنگا جمنی تہذیب تھی ، عرصۂ دراز سے ان میں اخوت کا جذبہ پنپ رہا تھا ، ان کے درمیان کئی بار ریشہ دوانیوں کی کوشش ہوچکی تھی ۔ تاہم ، ایسے لوگ خود ہی رسوائی کی عمیق غار میں جا پڑے ۔
آج وطنِ عزیز کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ، مذہبی منافرت ، تحفظ کا فقدان ، تحمل کا خاتمہ ، فرقہ وارانہ کشیدگی ، ہجومی تشدد ، دہشت زدگی کا ماحول ہے ، انسانیت ہراساں اور یرغمال بنی ہوئی ہے اور مسلم قوم ملک کی بڑی اقلیت ہے ، اس کی وطن دوستی کو مشکوک کیا جارہا ہے ، ہندوتو کے علم برداروں کی زبانوں پر ہندو ریاست کا قیام ، جہادِ محبت کا الزام اور نا زیبا کلمات ہیں ، حال آنکہ ہندوتو کے علم بردار راجہ ، جاگیردار اور اعلی ذات کے ہندو طبقہ نے خود کو انگریز کے خلاف مزاحمت سے دور رکھا تھا ۔ ان کی دریدہ دہنی اور اس جنگل راج پر اربابِ اختیار ، اعلی کمان اور قانونی ادارے خاموش تماشائی ہیں ۔ یاد رہے کہ ملک کی خوبصورتی اور استحکام کثرت میں وحدت والی تہذیب میں پنہاں ہے ۔ مہاتما گاندھی کی فلسفیانہ سوچ کہ ایک ایسا سماج جہاں تمام مذاہب کے لوگ بے خوف و خطر کھلے آسمان تلے مل جل کر رہیں سہیں ، ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔
جمہوری شجر کے سائے تلے !
قارئین ! خیال رہے کہ آج یوم جمہوریہ یعنی 26 / جنوری ہے ۔ ہم اس کے پس منظر میں کچھ گفتگو پچھلی سطروں میں کرچکے ہیں ، اگلی سطروں میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ قانون کیا ہے ؟ اس کا مدون کون ہے ؟ اس کی بالادستی کب اور کیسے قائم ہوئی ؟ اور 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ سے کیوں موسوم کیا گیا ؟ مختلف ادوار ؛ سمراٹ ، راجہ ، ملوک ، سادات ، مغل اور برطانیہ میں تخت نشین ملکہ نے صدیوں ہندوستانیوں کی گردنوں میں غلامیت کا طوق ڈالے رکھا۔ ان سلاطین کو جمہوری نظام یا اسلامی خلافت کی نہ سوجھی ۔ ہاں ! برطانوی عہد بوقتِ رخصت جمہوریت کا نظریہ خاکِ ہند میں ودیعت کر گیا ۔ اس نظامِ حکومت میں قانون خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ یہاں قانون کے سلسلہ میں مختصر گفتگو ملاحظہ فرمائیں ۔
آئین اور تعزیرات مشمولِ قانون ہیں :
مسودہ کمیٹی
29/ اگست 1947ء میں آئین کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنےکے لیے مسودہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسی میں کئی ذیلی کمیٹیاں تھیں ، آئین کی ترتیب کے لیے 200/ سے زائد اراکین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ؛ جواہر لال نہروؔ ، راجندر پرساد ، مولانا ابوالکلام آزادؔ ، بیرسٹر آصف علی ، خان عبد الغفار خان ، محمد سعد اللہ ، عبد الرحیم چودھری ، بیگم اعزاز رسول ، مولانا حسرت موہانیؔ ، سنجے فاکے ، چکر ورتی راج گوپال اچاریہ ، ولبھ بھائی پٹیل ، کنہیا لال مانیک لال ، منشی واسو دیو والانکار ، سندیپ کمار پٹیل ، شیاما پرساد مکھرجی ، نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا کے نام قابلِ ذکر ہیں اور اینگلو انڈین ، پارسی ، عیسائی ، گورکھا قبیلہ اور درج فہرست طبقات ، درج فہرست قبائل کی نمائندگی کے فرائض بالترتیب فرینک انتھوی ، پی ایچ مودی ، ہریندر کمار مکھرجی اور اری بہادر کورنگ اور 30/ اراکین نے سر انجام دیے تھے ۔
سربراہ
ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکرؔ ایک با معنی شخصیت کے مالک تھے ، دلت سماج سےان کا آبائی تعلق تھا ، ان کے کمالات کی فہرست کافی طویل ہے ، یورپی اور ایشیائی اقوام ان کی قابلیت کی معترف تھیں ، انگریزی ، مراٹھی اور سنسکرت زبان پر ان کو یکساں عبور حاصل تھا ، ہندوستان کی سماجی تاریخ اور ورن نظام کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے ، ہندو مذہب میں مقدس سمجھی جانے والی رگ وید ، سام وید ، یجر وید ، اتھر وید ، پُران اور شاستر نامی کتابوں کے عالمِ باکمال تھے ، دانشور کی حیثیت سے اپنے ہم عصر سیاست دانوں میں ان کو فوقیت حاصل تھی ، یہی وجہ رہی ہوگی کہ ان کو مسودہ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا ۔
سیکولر
آئین کے اصل مسودہ میں مقتدر اعلی جمہوری جمہوریہ کے قیام کو عملی طور پر ہندوستان میں لایا گیا تھا ، بیالیسویں ترمیم میں ملک کو مقتدر ، سوشلسٹ ، سیکولر ، جمہوری جمہوریہ میں منتقل کر دیا گیا تھا ۔ ہندوستان میں سیکولرزم کے معنی ہیں کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے ، ریاست تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے ، ملک کے ہر باشندے کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور سوشلسٹ کی اصطلاح پیداوار کے وسائل پر سماج کی نگرانی کے معنی میں استعمال کی گئی ہے ۔
ڈھانچہ
آئین در اصل ریاست کا بنیادی ڈھانچہ ہوتاہے ، آئین میں ہندوستان کو ریاستوں کی یونین کا نام دیا گیا ہے ، اس نظام میں تحریری آئین لازم ہے ۔ آئین میں 22 /24/ ذیلی ، جلی ابواب قائم میں کیے گیے ہیں ،395/ دفعات شامل کی گئی ہیں ۔ مرکزی ، ریاستی حکومت کےدرمیان رابطہ ، ان کے اختیارات کی تقسیم ، مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول ، سیاسی نکات ، صدرِ جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات ، پبلک سروس کمیشن ، الیکشن کمیشن ، فنائنس جیسے اہم اداروں اور عوامی بنیادی حقوق و فرائض ،حقِ مساوات، حقِ آزادی ، استحصال کے خلاف ، مذہبی آزادی ، ثقافتی اور تعلیمی حقوق ، پنچایت ، میونسپلٹی ، سرکاری زبانیں ، درج فہرست اور قبائلی رقبے کی موضوعاتی تفصیلات درج کی گئی ہیں اور عدلیہ کو مکمل آزادی عطا کی گئی ہے ۔ آئین پر عمل درآمدگی عدالتوں کا فریضہ قرار دیا گیا اور ماورائے عقل قانون کی تشریح کا حق بھی سپریم کورٹ کو ہی تفویض کیا گیاہے ۔ آئینِ ہند کو معطل نہیں کیا جاسکتا ہے ، البتہ ترامیم کی گنجائش رکھی گئی ہے ، قانون ساز اسمبلی (پارلمنٹ) کے ایوانِ بالا ، ایوانِ زیریں میں عوامی نمائندگی کی اکثریت ترمیم کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
قانون ساز اسمبلی میں پیش کیے گیے آئین کو 26/ نومبر 1949ء میں تسلیم کیا گیا تھا ، اسی دن کو آئین کی اہمیت اور امبیڈکر کے خیلات کی تشہیر کے لیے قومی یومِ قانون یا یومِ آئینِ ہند کے طور پر منایا جاتا ہے ۔26/ جنوری 1950ء میں یہ نسخہ بھارت کے قانون کی شکل میں نافذ کیا گیا تھا ۔ ہندی ، انگریزی اصلی نسخوں پر مولانا حسرت علی موہانیؔ کے سوا قانون ساز اسمبلی کے تمام اراکین کے دستخط ثبت ہیں ۔ یہ بھی واضح رہےکہ آئینِ ہند دنیا کی ضخیم قانونی دستاویز ہے ۔
تعزیراتِ ہند : دورِ فرنگ 1860ء میں ایکٹ 45 وضع کیا گیا تھا.26/ ابواب اور 511/دفعات پر مشتمل ہے ، اس میں تمام جرائم کی سزائیں متعین کی گئی ہیں ، اس کی اہم غرض ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ہے ، مجموعۂ تعزیراتِ ہند سے اس کو موسوم کیا گیا ہے ، جو ریاستِ جموں وکشمیر کے علاوہ سارے بھارت میں نافذ العمل ہے ۔ پولیس کنٹرول پینل (محکمہ انسدادِ جرائم ، امنِ عامہ) کےذریعہ مجرمین پر تعزیراتِ ہند کی دفعات لگائی جاتی ہیں ۔