بین الاقوامی

یہودیوں کا مسجد اقصی پر حملہ

فلسطین سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اتوار کی صبح انتہا پسند یہودی آبادکاروں کے ایک جتھے نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آور یہودیوں کو اسرائیلی پولیس کور فراہم کر رہی تھی جنہوں نے بعد ازاں الرحمہ نامی جائے نماز بند کر دیا اور مسجد قبلی میں نمازیوں کو محاصرے میں لے لیا۔

فلسطینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی پولیس نے باب السلسلہ کے قریب موجود چار فلسطینی جوانوں کو حراست میں لے لیا۔

ایک دوسری پیش رفت میں یہودی آبادکاروں نے جنوبی بیت لحم کی یہودی بستی کو جانے والی القدس شاہراہ کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا۔

نامعلوم سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے خبر رساں ادارے نے بتایا کہ یہودی آبادکاروں نے سڑک بند کر کے اسرائیلی پرچم لہرائے اور فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کے مظہر نعرے لگائے۔

اسرائیلی تیاریاں
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ القدس میں یہودیوں کی پرچم بردار ریلی کے موقع پر متوقع جھڑپوں کے پیش نظر اسرائیل نے بڑے پیمانے پر اپنے فوجی دستے باب العمود کے علاقے میں تعینات کر رکھے ہیں۔

یہ اقدامات ایسے وقت میں کئے جا رہے ہیں جب 48 کو اسرائیلی قبضے میں جانے والے علاقوں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی مسجد اقصیٰ داخل ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فورس ان فلسطینیوں کو القدس داخل ہونے سے روک رہی ہے۔

یہودی آباد کاروں نے القدس میں اتوار کے روز گرینچ کے معیاری وقت دن ایک بجے پرچم بردار ریلی نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس موقع پر تین ہزار اسرائیلی فوجی تعینات کئے جائیں گے۔ فلیگ مارچ القدس کے قدیمی شہر میں مسلمانوں کی کالونی سے گذرتے ہوئے باب العمود پہنچے گا۔

اسرائیلی اخبار ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے اپنی حالیہ اشاعت میں دعوی کیا ہے کہ اسرائیلی پولیس پرچم بردار ریلی کے موقع پر القدس سمیت فلسطین کے طول وعرض میں پائے جانے والی کشیدگی کے باوجود انتہا پسند یہودی رکن کنیسٹ ایتمار بن گویر کو اتوار کے روز مسجد اقصیٰ آنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے ایتمار گویر کا متوقع دورہ مسجد اقصیٰ سکیورٹی کی صورت حال کو مزید مکدر کر سکتا ہے۔

اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داخلی سلامتی سے متعلق اسرائیلی ادارے ’’شاباک‘‘ کے نمائندوں کی موجودگی میں ہونے والے سکیورٹی اجلاس میں گویر کی مسجد اقصیٰ آمد پر کسی قسم کا اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

قوم پرست یہودی اتوار کے روز القدس کے قدیمی علاقے کی اسلامی کالونی کے مرکز سے فلیگ شپ مارچ کا آغاز کریں گے۔ پرچم سے اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر تشدد کی لہر کو ہوا ملے گی۔

القدس شہر پر 1967 کی جنگ کے بعد ہونے والے قبضے کی یاد میں ہر سال قوم پرست یہودی ایسی ریلیاں نکالتے ہیں جو شہر کی تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی مسجد اقصیٰ جاتی ہیں۔

فلسطینی ایسی ریلیوں کو اشتعال انگیزی کا باعث سمجھتے ہوئے القدس کے قدیمی شہر کے ان علاقوں میں امن کی خلاف سمجھتے ہیں جہاں اب بھی خطے کے قدیم عربوں کی نشانیاں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ شہر میں بڑے پیمانے پر یہودی آبادکاروں کی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔

پرچم بردار ریلی کے جلو میں تل ابیب ’’یوم القدس‘‘ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ یہ دن 1967 کی جنگ کے بعد مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

حماس کا رد عمل
ادھر فلسطین کی سرکردہ مزاحمتی تنظیم ’’حماس‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ وہ پرچم بردار ریلی کا تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لا کر مقابلہ کریں گے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیلی مظاہرین باب العمود سے القدس کے قدیم شہر میں داخل ہوں گے جس کے بعد وہ حائط البراق [المعروف دیوار گریہ] کی جانب مارچ کریں گے۔

سنیچر کو رات گئے جاری کردہ ایک اخباری بیان میں حماس پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ’’اتوار کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے امت، عوام اور مزاحمت کی صورت میں ہمارے تینوں بازو تیار ہیں۔‘‘

’’ہم ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کریں گے۔ اہل قدس اس سلسلے میں ہمارا ہراول دستہ ہوں گے جنہوں نے ایک دن بھی دفاع اقصیٰ کے دفاع میں پیٹھ نہیں دکھائی۔ مغربی کنارے کے باسیوں کو گرین لائن میں بسنے والے فلسطینیوں کی ہر سطح پر عوامی اور میدانی حمایت حاصل ہو گی۔ غزہ بھی دفاع اقصیٰ میں ننگی تلوار ثابت ہو گا۔‘‘

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ٹور وائنزلینڈ نے جمعہ کے روز ایک بیان میں تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرتشدد لڑائی اور اس میں مزید جانوں کے ضیاع سے بچنے کی خاطر ضبط نفس سے کام لیں۔ ٹور کے بہ قول بین الاقوامی برادری کا پیغام اس قسم کی کشیدگی روکنا ہے۔

دریں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ ریلی کا روٹ تبدیل کرنے سے متعلق اپنے بعض حلیفوں کے مطالبات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

غزہ پر حکومت کرنے والی اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے گذشتہ برس ایسی ہی ریلی کے آغاز پر اسرائیل کو اپنے مقامی ساختہ میزائلوں سے نشانہ بنایا جس کے بعد چھڑنے والی گیارہ روزہ جنگ میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے جبکہ بھاری پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا۔

اسرائیل بزعم خود القدس کو اپنی صہیونی ریاست کا غیر منقسم دارلحکومت گردانتا ہے جبکہ فلسطینی اس کے مشرقی حصے کو اپنی پیش آئند آزاد فلسطینی ریاست کا دارلحکومت قرار دیتی ہے۔ حماس سمجھتی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی غصب کردہ سرزمین پر قائم ریاست ہے۔

کئی ہفتوں سے القدس میں کشیدہ صورت حال میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گذشتہ ماہ اپریل [رمضان المبارک] کے دوران اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان مسجد اقصیٰ میں اس وقت جھڑپیں دیکھنے کو آئیں جب یہودی زائرین کی مسجد اقصیٰ آمد میں اضافہ دیکھا گیا۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button