قومیکالم

کاندھے پر Swiggy کا بیگ لٹکائے مسلم خاتون کی دردناک کہانی!

جب اس تصویر پر پہلی بار نظر پڑی تھی تبھی یہ خیال آیا تھا کہ معاملہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے پر یہ تو طے ہے کہ یہ خاتون Swiggy کے لیے کام نہیں کرتی ہوں گی کیونکہ شہر کے مختلف حصوں میں پیدل کھانے کا آرڈر پہنچانا تقریبا ناممکن ہے۔ لیکن ایک بات یقینی تھی کہ یہ مسلم خاتون ضرور حالات کی ماری ہوئی ہیں۔
کل ہی Theonknayak نامی ایک ویریفائیڈ ٹویٹر نیوز ہینڈل پر اس مسلم خاتون کی دردناک کہانی شائع ہوئی ہے جسے پڑھ کر ہر دلِ دردمند تڑپ اٹھے گا۔

اس خاتون کا نام رضوانہ ہے اور یہ اپنے تین بچوں کے ساتھ نارائین روڈ چوک پر واقع جنتا نگری کالونی کی کسی تنگ گلی میں رہتی ہیں، ان کی شادی 23/ سال پہلے ایک آٹو رکشہ چلانے والے شخص سے ہوئی تھی لیکن ایک دن کسی نے ان کا آٹو رکشہ چرا لیا اور تب سے ان پر سخت حالات کی مار پڑی۔ ان کی معاشی حالت اس قدر بگڑی کہ ان کے شوہر کو بھیک مانگنی پڑ گئی، وہ بہت زیادہ فکرمندی اور تناؤ میں رہنے لگے تھے اور ایک دن اسی فکر مندی کی حالت میں گھر سے نکلے اور پھر پلٹ کر نہیں آئے۔ آج تین سال ہوگئے ہیں لیکن ان کی کوئی خبر نہیں ملی ہے، پتہ نہیں زندہ ہیں یا مر گئے۔

May be an image of 3 people and people standing

اس دردناک صورت حال میں رضوانہ نے گھر چلانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا لی، اور کسی طرح دو سال پہلے اپنی بڑی بیٹی لبنی کی شادی کرسکیں۔ ابھی وہ دو بیٹیوں 19/ سالہ بشری، 7/ سالہ نشرح اور گیارہ سال کے ایک بیٹے کے ساتھ 10×10 کے ایک روم میں رہتی ہیں۔

May be an image of 2 people, child, people sitting and footwear

ایک غیر تعلیم یافتہ، غریب اور اکیلی ماں کو اپنے بچوں کو پالنے اور پوسنے کے لیے نہایت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بتاتی ہیں کہ وہ صبح و شام دو گھروں میں گھریلو کام کاج کرکے پندرہ سو روپے ماہانہ حاصل کرلیتی ہیں، اور مزید کمائی کے لیے دوکانداروں سے ڈسپوزل کپ اور گلاس وغیرہ خرید کر ٹھیلے والوں کو فروخت کرتی ہیں، جس سے کچھ پیسے کما لیتی ہیں۔ رضوانہ کہتی ہیں کہ اسے روزانہ سامان مختلف جگہ پہنچانا ہوتا ہے اور کمائی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ سواری کرسکے، جس کی وجہ سے اسے روزانہ 20-25 کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا ہے تاکہ وہ مزید پیسے بچا سکے۔
رضوانہ نے یہ بھی بتایا کہ اس کا Swiggy سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسے ایک مضبوط اور بڑے بیگ کی ضرورت تھی تاکہ اس میں کپ اور گلاس وغیرہ ڈھوسکے، اس لیے اس نے یہ بیگ ٹھیلہ والے سے پچاس روپے میں خریدا ہے۔
میں یہ کہانی یہاں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ لکھنؤ کے کسی شخص کی توجہ اس طرف چلی جائے یا ملّی اور دینی تنظیموں میں سے شاید کوئی کار خیر کردے تو اس مصیبت کی ماری مسلم خاتون کا کچھ بھلا ہوجائے۔

اسامہ طیب

 

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button