ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کی غزلیات میں ماضی پرستی (دخترِ نیل کےتناظر میں)! ڈاکٹر راحیلہ خورشید

ڈاکٹر راحیلہ خورشید
وومن یونیورسٹی، پشاور
اس کے ہر لفظ میں ہے اس لیے سمٹی خوشبو
دخترِ نیل کی سانسوں میں گھلی ہے اردو
عین شمس یونیورسٹی (مصر) میں شعبہ اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ولاء جمال دنیائے اردو ادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ” سمندر ہے درمیان” سے” دختر نیل” تک کے سفر میں شاعرہ نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ اگرچہ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ اس کے باوجود اردو میں وہ اشعار کی جو قوس قزح سجانے کا ہنر رکھتی ہیں۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ڈاکٹر ولاء اس حوالے سے خوش قسمت ہیں۔کہ ان کو زندگی کے ابتدائی دور میں ہی عروج،شہرت اور عزت کے ساتھ بے پناہ محبت حاصل ہو رہی ہے۔ اردو غزل کی دنیا میں عصری ضرورت کو مدنظر رکھ کر اپنے مخصوص اسلوب کے ذریعے پزیرائی حاصل کرنے والی ڈاکٹر والاء اپنی شاعری میں ہجرو وصال، انسانی رویوں اور نظریاتِ زندگی کو ماضی کے ساتھ مربوط کر کے شاعری کو ان دیکھی معراج پر پہنچا دیتی ہیں۔
دل سے میری یادوں کو رہا کیوں نہیں کرتے
تم پھولوں سے خوشبو کو جدا کیوں نہیں کرتے
دراصل ماضی سے تعلق نبھانے کی خوبی کسی کسی لکھاری کونصیب ہوتی ہے۔ بحیثیت انسان ہم اپنے ماضی سے جڑے رہنے میں ہی بقا سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر ولاء کی شاعری میں ماضی کی تلخ اور شیریں واقعات کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔ وہ ایک خاص پیرائے میں اپنے جذبات کو بیان کرتی ہیں۔جن مقامات پر وہ ما ضی پرستی سے لاتعلقی بھی اختیار کرتی ہیں۔وہاں بھی داخلی اور خاص طور پر نفسیاتی حوالے سے ماضی سے رشتہ توڑنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتیں۔
اکیلا پا کے مجھ کو تیری یادیں بات کرتی ہیں
جو تونے پیار میں کھائیں وہ قسمیں بات کرتی ہیں
پھر سے کسی کے عشق میں جلنے لگا ہے دل
پھر روح مبتلا ہے پرانے عذاب میں
اردو شاعری میں سوکھے ہوئے پھول ماضی کی علامت گردانے جاتے ہیں۔اسی طرح خطوط بھی دم توڑتی روایت کا نوحہ ہیں۔ ڈاکٹر ولاء بھی بھولے وعدوں،ٹوٹی قسموں، سوکھے پھول اور خطوط کو ماضی کی قبریں کہہ کر ربط نہ رکھنے کی دعوی دار ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں محبت کی جذبات سے جڑی ہر علامت قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔
بھولے وعدے،ٹوٹی قسمیں،سوکھے پھول،تمہارے خط
میرا کوئی ربط نہیں ہے ماضی کی ان قبروں سے
برسوں سے کوئی خط نہیں آیا مرے گھر پر
اب نامہ یہاں لوگ لکھا کیوں نہیں کرتے
ا نسانی فطرت ہے۔کہ وہ حال میں زندگی گزارتے ہو? ماضی کی گلی کوچوں، حویلی،دالانوں اور جھروکوں میں جھانکنا پسند کرتا ہے۔ کیو نکہ ماضی صرف کڑوی یادوں کا حوالہ ہی نہیں بلکہ زخموں کو مندمل کرنے کا سہارا بھی ہے۔ بعض زخم اسے بھی ہوتے ہیں جن کی نفسیاتی کیفیت کا تعلق ماضی کے کسی خوشگوار ناخوشگوار واقعے سے جڑا ہوتا ہے۔ڈاکٹر ولاء وہ انسان ہونے کے ناطے ماضی کے کھنڈرات کو دل کا اساس قرار دے رہی ہیں:
ماضی کے ریگزار میں یادوں کا اک کھنڈر
اتنی ہی اے ولاء مرے دل کی اساس ہے
شاعرہ نے جابجا ماضی پرستی کا تانا بانا انسانی نفسیات کے ساتھ بنا ہے۔انسانی نفسیات میں یہ عنصر نمایاں رہا ہے۔ کہ وہ ماضی کی آنکھوں سے حال اور مستقبل کو مناظر بھی دیکھتا ہے۔ڈاکٹر ولاء بھی اس موضوع کو شعری قالب میں اس طرح ڈھا لتی ہیں۔ کہ یادوں کیلئے خزانہ کا لفظ استعمال کر کے یہ ثابت کیا۔کہ کوئی بھی دوسرا فریق ہم سے ہماری یادیں نہیں چھین سکتا۔اور بہت سے لوگ یادوں کے سہاریساری زندگی بتا دیتے ہیں۔
سب چھین کر بھی چین نہ پائے ہو جس کو تم
یادوں کا وہ خزانہ ابھی میرے پاس ہے
یادوں کا اک ہجوم ستاتا ہے رات بھر
ماضی کے سب چراغ جلاتا ہے رات بھر
عام طور پر ناسٹلجیا کو صرف پاکستان اور ہندوستان کے لکھاریوں سے ہی موسوم کیا جاتا ہے۔کیوں کہ تقسیم ہند اور ہجرت کے واقعات کے کرب نے نسٹا لجیا کو جنم دیا۔ لیکن اب ادب میں اسے عالمی سطح پرماضی کے جذبات و احساسات کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ولاء کی شاعری میں ناسٹلجیائی قوت پوری شدت سے موجود ہے۔ وہ صرف انفرادی غموں پر نوحہ خواں نہیں بلکہ مسلمانوں کی عظیم انسان ماضی کے حوالے سے بھی قارئین کو ماضی کا پردہ سرکانے پر مجبور کرتی ہیں۔
پلٹ کر آیا نہیں پھر کوئی صلاح الدین
اسی کی یاد میں روتے ہیں مسجد اقصی
یہ دنیا اپنے دامن میں خوشی و مسرت کو لئے ہوئے ہیں۔نشاط و غم کا سلسلہ در سلسلہ انسانی حیات کے ساتھ تو جڑا ہوا ہے۔مگر کچھ غم اس قدر درد ناک ہوتے ہیں۔کہ ایک غم ہزاروں خوشیوں پر غالب آ جاتا ہے۔اس وقت کوئی بھی انسان جس اداسی،دردنا کی، اور مایوسی سے گزرتا
ہے۔تو اس صورت میں وہ مہربان بھی یاد دیتے ہیں۔جو نامساعد حالات میں آنکھیں پھیرنے کے ہنر میں یکتا تھے۔وقت بہرحال گزر ہی جاتا ہے۔مشکل میں ہاتھ ہلا کر دور ہونے والے جب پھر سے دل کی تاروں کو ہلانا چاہیں۔تو پھر ڈاکٹر والاء کا یہ شعرہی بہترین جواب قرار دیتا ہے۔
میں تم پر جان لٹاتی اور تمہاری ہو کے رہ جاتی
جو میرے ساتھ تم ہوتے مرے ماضی کے سالوں میں