قومی

پلیس آف ورشپ قانون کی آئینی حیثیت پرآج سپریم کورٹ میں سماعت،عدالت اس ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے!جمعیۃ علماء ہند

نئی دہلی 11؍ اکتوبر 2022 (ہندوستان اردو ٹائمز) پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پرکل سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت ہونے جارہی ہے، چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کریگی جس میں جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی شامل ہیں۔

اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند نے ایک جانب جہاں پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کی مداخلت کرنے کے لیئے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے وہیں سول پٹیشن داخل کرکے عدالت سے پلیس آف ورشپ قانو ن کے تحفظ کی درخواست کی ہے ۔
صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے ۔ عدالت نے جمعیۃ علماء کی رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست کو گذشتہ سماعت پر ہی سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، اشونی کمار اپادھیائے اور دیگر لوگوں نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیاہے اور عدالت سے ان کا مطالبہ ہیکہ اس قانون کی وجہ سے وہ کاشی متھرا، گیان واپی اور دیگر دوہزار ایسی مسلم عبادت گاہوں کو ہندو عباد ت گاہوں میں تبدیل نہیں کرا پارہے ہیں کیونکہ یہ قانونی عبادت گاہوں کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل سول رٹ پٹیشن میں یہ تحریر ہیکہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا ، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میںکیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250 )نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوںکی حفاظت کرے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے لہذا سپریم کورٹ آف انڈیا پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔

عرض داشت میں مزید تحریر ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول گیان واپی مسجد، قطب مینار ، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے نیزملک کی مختلف عدالتوں میںمقدمات قائم کرکے مسلمانوں کوپریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لہذا پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی تمام عرضداشتوں کو خارج کیا جائے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button