مضامین

نقوش آگہی (مجموعہ مقالات ومکتوبات)مصنف: وارث ریاضی

زیر نظر کتاب”نقوش آگہی”مولانا وارث ریاضی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔مولاناکی ذات محتاج تعارف نہیں۔وہ اردو کے قادرالکلام شاعر ونثرنگارہیں،وسیع المطالعہ ماہر عروض ہیں،صاحب ذوق اور ناقدانہ زرف نگاہی سے مالامال ہیں۔اردوکے استاد شعراءکےعلاوہ دبستان شبلی کے خوشہ چیں ہیں،دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ ہیں،راسخ العقیدہ ہونے کے ساتھ ہی کشادہ ظرف بھی ہیں۔ستیہ آگرہ کی سرزمین مغربی چمپارن کے سکٹا دیوراج سے ان کا تعلق ہے،معلمی کےمعززپیشہ سے سبک دوش ہوکر وطن میں قیام پذیر ہیں۔اصل نام محمد وارث حسن اور قلمی نام وارث ریاضی سے معروف ہیں۔صوفی باصفا اور عالم بے بدل ہیں۔ ان کی ہر تحریر خواہ وہ نثری ہو یا شعری "یاوارث "کی تسبیح پر مجبور کرتی ہے۔ہندوپاک کے مؤقر رسالوں میں ان کے مضامین ومقالات اور شعری تخلیقات شایع ہوتی رہتی ہیں۔اس سے قبل بھی وارث ریاضی صاحب کی نظم ونثر میں دوکتابیں”حرف آرزو”شعری مجموعہ ٢٠١٢ع میں اور ٢٠١٦میں مضامین کا مجموعہ”نقوش افکار”شایع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔

نقوش آگہی ان کے مضامین ومقالات کا تیسرا مجموعہ ہے جو٢٠٢١میں منظرعام پر آیاہے۔جس میں انہوں نے اپنے بعض منتخب مقالات،علمی وفکری تحقیقات،تاثرات،استدراکات ومکتوبات کوجمع کیا ہے۔اس پرمقدمہ غطریف شہباز ندوی نے لکھا ہے۔کچھ اپنی بات کے عنوان سے مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی کی ایک تاثراتی تحریر بھی زینت کتاب ہے۔کتاب کا انتساب مایہ ناز تحقیقی و علمی ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ کے ترجمان معارف کے نام ہےجس نے مصنف کے پرورشِ لوح وقلم کے جذبہ والہانہ کومہمیز کیا ہے۔یوں تواس کتاب میں آٹھ مضامین اور مشاہیر علم وادب کے نام تیس خطوط اور مختلف اہل علم وفضل کی گراں قدر آرا شامل ہیں جو انہوں نے مصنف کی کتاب”نقوش افکار”پر بطور تبصرہ رقم کی تھیں۔اس کتاب کےمشمولہ مضامین کے عناوین کچھ یوں ہیں: حضرت جگر مرادآبادی کی شاگردی کامسلہ حقیقت کے آئینہ میں،عمرہابایدکہ مرد پختہ کارآیدچنیں،حضرت مولانا سید نظام الدین کی شاعری-ایک تجزیاتی مطالعہ،بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ،درست گفت محدث کہ قوم ازوطن است،استدراک،سرہندشریف کا ایک مبارک سفر،کیسے ہوتےہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں۔اس کتاب کے مشمولات کی وضاحت کرتے ہوئے وارث ریاضی لکھتے ہیں:”راقم الحروف نے نقوش آگہی کے پہلے مقالے میں شہنشاہ تغزل حضرت جگر مرادآبادی مرحوم (١٨٩٥-١٩٦١) کی شاگردی کے مسلے کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔دوسرامقالہ سابق امیر شریعت سادس اور جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا سید نظام الدین (١٩٢٧-٢٠١٥) سے تعلق رکھتا ہے،جس میں ان کے خاندانی پس منظر اور آن کی حیات وخدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔تیسرے مقالے میں مولانا موصوف کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

چوتھےمقالےکاعنوان "بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ”ہے۔اس میں مدرسہ قرآنیہ سمرا(مغربی چمپارن) کے بانی،اس کے سنہ تاسیس اور اس ادارے کی قرآنی تعلیمات وخدمات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے (عرض مصنف صفحہ:١٣) درحقیقت ہندوستان کے جن گم نام قصبوں میں دینی مدارس قائم کیے گئے ان میں بہار کاایک قدیم ادارہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بھی ہے۔جوحفظ وقرات کی تعلیم کے لیے پورے ہندوستان میں مشہور و معروف ہے۔اس فن کی تعلیم میں اس کی ایک تابناک تاریخ رہی ہے جس کوکوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔اس ادارے کا قیام حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ (١٧٨٦-١٨٣١) کے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا جعفر علی نقوی بستوی رحمۃ اللہ علیہ (١٨٠٣-١٨٧١) کی طرف منسوب ہے۔حضرت مولانا جعفر علی کے خانوادے کے ایک ممتاز ومعروف عالم دین اور فقہ اکیڈمی انڈیا کے متحرک وفعال رہنما حضرت مولاناو مفتی عبیداللہ الاسعدی نے اپنے گرامی قدرجد اعلیٰ پر”حیات جعفر”کے نام سے ایک گراں قدر کتاب لکھی ہے۔اس میں مولانارقم طراز ہیں:”حضرت مولانا کی طرف منسوب اداروں میں بعض بڑے بافیض ثابت ہونے اور ان کی بڑی شہرت رہی اور بعض کسی نہ کسی درجے میں برابر چلتے رہے اور اس وقت ان کی نشات ثانیہ ہوچکی ہے اور اب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ کے طور پر کام کر رہے ہیں(مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ نہیں ہے)۔ان اداروں کا قیام چوں کہ مولانا علیہ الرحمہ کی حیات میں اور ان کے توسط سے ہوا،اس لیے یہ ہندوستان کے قدیم ترین مدارس میں ہیں ۔یہاں تک کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے بھی یہ قدیم ہیں۔اور بالخصوص شمالی ہند کے۔کچھ اور اداریے بستی تا بتیاپھیلے ہونے ہیں، جن کا تعلق احناف سے رہا ہے جن میں کم از کم چار معروف ہیں: مدرسہ جعفریہ ہدایت المسلمین (ضلع بستی) مدرسہ قرآنیہ سمرا(ضلع مغربی چمپارن) مدرسہ اسلامیہ احسانیہ سمرا تھاوے (ضلع گوپال گنج) مدرسہ انوار العلوم مادھوپوربڑہریا(ضلع سیوان) حیات جعفر ،ص:٣١٥) مدرسہ ہدایت المسلمین کاقیام ١٢٤٧میں ہوااورمدرسہ اسلامیہ احسانیہ سمرا١٨٤٨میں قائم ہوا۔ اور مدرسہ انوار العلوم مادھوپوربڑہریاضلع سیوان ١٨٥٧کےآس پاس قائم ہوا۔لیکن مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کا سنہ قیام معمہ بنا ہوا ہے۔کیوں کہ اگر ١٨١٨ع کو مدرسہ کا سنہ تاسیس قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ مدرسہ کے رکارڈ میں لکھا گیا ہے تو ایسی صورت میں اس ادارے کے قیام کی نسبت مولانا جعفر علی نقوی بستوی علیہ الرحمہ کی طرف کرنا درست نہیں ہوگا۔کیوں کہ ١٨١٨میں مولانا بستوی طالب علمی کے دور سے گزررہےتھےاوران کی عمر اس وقت محض پندرہ برس کی تھی۔اس بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا جعفر بستوی نے ١٢٥٠ھ/١٨٣٤اور١٢٧٤ھ/١٨٥٧ع کے درمیان کسی سنہ میں مدرسہ قرآنیہ سمرا کو قائم کیا ہوگا ۔چوں کہ ١٢٦٥ھ/١٨٤٨ع میں مولانا جعفر علی کے ہاتھوں مدرسہ اسلامیہ احسانیہ سمرا تھاوے گوپال گنج کا قیام عمل میں آیا۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔لہذا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اسی سنہ میں یا اس کے آس پاس کسی سنہ میں مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کی بنیاد پڑی ہوگی۔کیوں کہ مدرسہ اسلامیہ احسانیہ سمرا تھاوے گوپال گنج اور مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کے مدرسین واراکین کے مابین گہرا ربط و تعلق زمانہ قدیم سے تھا(نقوش آگہی،ص:١٠٥) اورمزے کی بات یہ ہے کہ اس مدرسہ قرآنیہ کوشہرت عام اور بقائے دوام کا سہراعبدالحافظ ملقب بہ حافظ بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ (١٢٨٣-١٣٦٣ھ) کے سرجاتا ہے جو خود سمرا تھاوے ضلع گوپال گنج سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد محترم حافظ عنایت کریم مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کے دور اول کے اساتذہ میں تھے۔کتاب مذکوراس طرح کی علمی تحقیقات سے مملو ہے،دامن دل میں کشد جا این جا است کابہترین نمونہ ہے۔آییے مزید مقالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی (١٨٧٩-١٩٥٧ع) اور شاعر مشرق علامہ اقبال (١٨٧٧-١٩٣٨ع) کے درمیان نظر یہ قومیت کے مسلے میں جو مناقشہ ہوا تھا،پانچویں مقالے میں اس کو پیش کیا گیا ہے۔چھٹامقالہ بھی استدراک کے عنوان سے اسی کی تتمیم و تکمیل میں ہے۔ساتواں مقالہ سرہند شریف کے مبارک سفر کی سرگزشت پر مشتمل ہے۔آٹھویں مقالے میں مصنف نے اپنے نام اقبالیات کے ماہر اور حافظ کلام اقبال پروفیسرجگن ناتھ آزاد(١٩١٨-٢٠٠٤ع) کے ساتھ خطوط کے لکھے جانے کاپس منظر بیان کیا ہے۔یہاں پر یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ مولانا وارث ریاضی (پیدائش:٢/اکتوبر ١٩٤٩ع ازروئے سند)کو شعرو سخن میں تلمذحضرت الم مظفر نگری(وفات:١٩٦٩)اور ماہر القادری (١٩٠٦-١٩٧٨ع) سے حاصل ہے۔

ایک بار پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنے رسالہ”ادبیات”میں وارث ریاضی کی ایک نعت شایع کیا۔اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے وارث صاحب نے خط لکھا کہ:”غیر مسلم ہوتے ہوئے آپ نے میری نعت شایع کی،جب کہ عبدالسلام مچھلی شہری (١٩٢١-١٩٧٣ع) نے ایک بار ماہنامہ شاعر کے مدیر شہیر اعجاز صدیقی مرحوم (١٩١٣-١٩٧٨ع)کو شاعر کے لیے ایک نعت بھیجی تو اعجاز صدیقی نے عبدالسلام مچھلی شہری کو لکھا کہ:”شاعر ادبی پرچہ ہے،ایک نعت شایع کردینے سے دوسرے شعرا کے نعتیہ کلام کی اشاعت کا جواز پیدا ہو جاے گا”۔اورکلام لوٹا دیا۔پروفیسر جگن ناتھ آزاد اس کے جواب میں لکھتے ہیں:”نعت کے متعلق میں سید احتشام حسین اور اعجاز صدیقی کا ہم خیال نہیں ہوں ،نعت کو ہم محض اس لیے نظر انداز کرد یں کہ یہ نعت ہے ایک غیر صحت مند نظریہ ہے،اصل معیار اس کا شعری اور ادبی مرتبہ ہے،اردواور فارسی میں ہمیں نعت کے ذریعے سے بلند پاے کے ادب پارے ملے ہیں،انہیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے”.(ص:١٨٤ ،١٨٥)جب کہ اردو اصناف ادب میں نعت گوئی ہمیشہ سے مقبول ومعروف رہی ہے۔تقریبا ہردیوان اور مجموعہ کلام میں نعتیہ اشعار پاے جاتے ہیں۔قلی قطب شاہ(١٥٦٥-١٦١٢ع) سے لے کر مومن(١٨٠٠-١٨٥١) وغالب(١٧٩٧-١٨٦٩) تک یہی روایت رہی ہے۔چنانچہ ظہیر غازی پور ی(پیدائش:١٩٣٨-١٩١٦) نے مرزا غالب کے اس شعر_ زباں پہ بارخدایایہ کس کانام آیا ۔کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے ۔کوزیربحث لاتے ہوئے لکھا ہے کہ:”جناب ناوک حمزہ پوری(پیدائش:١٩٣٣ع) نے لکھا ہے کہ’اے کاش غالب نےیہ شعر بہ ارادہ نعت کہہ کر اپنی عاقبت سنوار لی ہوتی،حال یہ ہے کہ غالب نے یہ شعر تجمل حسین خاں کے لیے چند ٹکے کی امید میں کہا تھا'(اردو نعت کی شعری روایت،ص:١٢٢) شاعری کی اصطلاح میں جس نظم میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا اور آپ کے محاسن و کمالات بیان کیے جاییں اس کو نعت کہاجاتاہے۔نعت مشکل ترین صنف سخن ہے۔اس میں ذرا سی لغزش حدودِ شرک میں داخل کردیتی ہے،یہی وجہ ہے کہ عرفی شیرازی (١٥٠٥-١٥٩١ع) جیسا نغز گفتار اور قادرالکلام شاعر نعت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کہتا ہے:عرفی مشتاب،ایں رہ نعت است،نہ صحرا است۔۔۔آہستہ رہ کہ بردم تیغ است قدم را(عرفی!یہ راہ نعت ہے،کویی صحرا نہیں،یہاں آہستہ قدم رکھنا کیوں کہ نعت کہناتلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے مترادف ہے) کسی اردو شاعر نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے:میاں!یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے ہے۔۔کسی کو خاک بنایے کسی کوزرکر دیے۔مولانا وارث ریاضی نے اس کتاب میں مشاہیر علم و ادب کے نام لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں،وہ لکھتے ہیں:”نقوش آگہی کے دوسرے حصے میں فاران کراچی،معارف اعظم گڑھ،افکارملی دہلی،ماہنامہ انشاکولکتہ،کانفرنس گزٹ علی گڑھ،اورماہنامہ آجکل نءی دہلی وغیرہ میں راقم الحروف کے شایع شدہ چند علمی خطوط بنام مشاہیر علم وادب شامل ہیں۔٢٠١٦ع میں راقم کی کتاب نقوش افکار منظر عام پر آئی تو اردو کے مختلف علمی رسالوں میں اصحاب علم وادب نے اس کتاب پر اپنے خیالات وتاثرات کا اظہار کیا تھا۔راقم نے انہیں خیالات وتاثرات کو’رشحات نقد ونظر’کے زیر عنوان یکجا کر دیا ہے۔شاید ان کا مطالعہ راقم کے افکار و نظریات کے سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے”.(ص:١٤,١٥) حقیقت میں یہ سارے مضامین ومقالات بڑی محنت،ریاضت اور تحقیقی ذمہ داریوں کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔مصنف کے مطالعے میں بڑی وسعت،تنوع اور گہرائی ہے۔بقول مولانا عمیر الصدیق ندوی کے:”اس کتاب کے مضامین اور مکاتیب کو پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اردو ادب و شعر کی صلاح و فلاح اور علم کی مقصدیت اور اس کی اصل افادیت ونافعیت اور ادب کی بقا وترقی واستحکام کے لیے وارث ریاضی صاحب کی حیات وخدمات میں برکات کی بارش کرتا رہے۔زخموں کے مہروماہ سے علم کے بام پر جشن چراغاں وہ یوں ہی مناتے رہیں ".اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا وارث صاحب نے پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے مشورہ سے بہار یونیورسٹی مظفر پور سے”اقبال اور عشق رسول”کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے لیے ١٩٨٦ع میں رجسٹریشن کرایاتھالیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ع اے بسا آرزو کہ خاک شد۔وارث ریاضی میں خود اعتمادی جگن ناتھ آزاد کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے،وہ خود رقم طراز ہیں:”میں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہوں گا کہ یہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد ہی کے حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ شعر و شاعری میں میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئی اور ١٩٨١ع سے تواتر کے ساتھ میراکلام معارف جیسے معیاری رسالے میں محترم سید صباح الدین عبدالرحمن (١٩١١-١٩٨٧ع)کے دورادارت سے شایع ہونے لگا،مولانا ضیاء الدین اصلاحی علیہ الرحمہ بھی اپنے دورادارت میں پابندی سے میراکلام معارف میں شائع کرتے رہے،میرے خطوط اور مضامین بھی انہوں نے معارف میں شائع کیے،

پروفیسر اشتیاق احمد ظلی زیدمجدہ اور جناب مولانا عمیر الصدیق ندوی مدظلہ نے بھی میرے کلام کی پذیرائی میں کوئی کمی نہیں کی”.(ص:١٩٤,١٩٥) مولانا کی تخلیقات،مقالات اور مکتوبات پذیرائی کی سچ مچ مستحق ہیں۔اس کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔حق گویی وبےباکی آپ کی جابجا اس کتاب میں بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔بسااوقات دل اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہوتا لیکن کیا کیا جائے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں،کیوں کہ راوی ثقہ وعادل ہے۔چشم حیرت کے ساتھ دیکھیےوہ لکھتے ہیں:”دسمبر ٢٠١٢ع کے کانفرنس گزٹ کے شمارے میں محترم پروفیسر سید احتشام احمد ندوی مدظلہ کامقالہ”پروفیسر مختار الدین احمد کے میدان جستجو”پڑھ کر حیرت ہوئی کہ عربی لکھنے پر قادر نہ ہو نے کے باوجود آرزو صاحب نے”الحماستہ البصریہ”کونہایت قابلیت کے ساتھ کس طرح آڈٹ کردیا اور ہندوستان اور بیروت سے اس کے کءی ایڈیشن بھی نکل گیے۔مزید حیرت و استعجاب کے ساتھ اگے لکھتے ہیں”کیا یہ تمام علمی،تحقیقی اور صحافتی کام آرزو صاحب نے محض بیساکھی کے سہارے انجام دیے؟۔۔ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے-خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے”.(ص:٢٧٨)مشتے نمونہ از خروارے کےطور پر مزید دیکھیے وہ لکھتے ہیں:”کوئی چودہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے،امارت شرعیہ بہار واڑیسہ پھلواری شریف پٹنہ کی نءی بلڈنگ میں ایک جگہ دیوار پر آویزاں اس شعر: پھونک کر اپنے آشیانے کو۔۔روشنی بخش دی زمانے کو(نایب امیر شریعت رح) پر میری نظر پڑی،شعر کے نیچے مندرج نایب امیر شریعت سے مراد”بانی امارت شرعیہ ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد (١٨٨٣-١٩٤٠) کی ذات گرامی مراد ہے۔جب کہ حقیقت میں یہ شعر عارف عباسی مرحوم کا ہے جو ان کے مجموعہ کلام”موج رنگ”میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔جب اس غلطی کی طرف میں نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین کی توجہ دلائی تو انہوں نے مجھ سے ثبوت طلب کیا،میں نے ان کو معارف ستمبر ١٩٥٤ع کے شمارے کے صفحہ ١٢٩پرعارف عباسی مرحوم کی شایع شدہ غزل کا عکس بھیج دیا ،تب انہوں نے میری بات تسلیم کی ".(ص :٢٢٤.٢٧٥)ستم بالاے ستم تو یہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کا یہ شعر۔۔حسن تدبیر سے جاگ اٹھتا ہے قوموں کا نصیب۔۔ کبھی تقدیر بدلتی نہیں ارمانوں سے۔

علامہ اقبال کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے۔خود مولانا وارث ریاضی اس المیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ادھر ١٥/اپریل ٢٠٢٠ع کوNDTVکانشریہ دیکھ رہا تھا،اس نشریاتی پروگرام میں ٹی وی اینکر س کے گفتگو کے دوران میں پنجاب کے وزیر صحت نے میرے شعر: حسن تدبیر سے جاگ اٹھتا ہے قوموں کا نصیب۔کبھی تقدیر بدلتی نہیں ارمانوں سے۔کو علامہ اقبال کی طرف منسوب کردیا،مجھے سن کر حیرت ہوئی اور افسوس بھی کہ میری زندگی ہی میں میرا شعر علامہ اقبال کی طرف منسوب کردیا گیا،بہت پہلے ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی مرحوم نے اسی شعر کوایک کتاب کے پیش لفظ میں درج کیا تھا،چندسال پہلے فرید بک ڈپو نءی دہلی نے اپنے کلینڈر میں اس شعر کو شایع کیا تھا لیکن کسی نے میرے نام کے حوالے سے اس شعر کو شایع نہیں کیا۔(ص:٢٧٦) مولانا وارث ریاضی صاحب غنیمت ہے کہ لوگوں نے آپ کا فقط ایک شعر ہی اڑایا ہے،ورنہ تولوگ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پوری کی پوری کتاب ہی ہضم کرجاتے ہیں اور ڈکار لینے کی بھی زحمت نہیں کرتے ۔آپ نے ہی اپنے گوہرافشاں قلم سے رقم فرمایا ہے کہ:”مفتی ظفیر الدین صاحب (١٩٢٦-٢٠١١) مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند وسابق مفتی دارالعلوم دیوبند نے قرآن حکیم کی آسان اور مختصر و مکمل تفسیر”درس قرآن”کے نام سے لکھی تھی،یہ تفسیر ان کی زندگی میں ادارہ درس قرآن دیوبند کی طرف سے قسط وارچھپتی رہی لیکن مفتی صاحب کی وفات کے بعد اب ادارہ مذکور کے مالک نے”درس قرآن”کو اپنے بیٹے مولانا اظہار کی طرف منسوب کردیا ہے: ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے(ص:١١٧,١١٨) ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنی تصنیف میں فارسی کے مشہور شاعر لسان الغیب حافظ شیرازی کی ہندوستان آمد کاذکر کیاہے۔مولانااس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”کتب تاریخ سے حافظ کا ہندوستان آنا ثابت نہیں ہے۔

ڈاکٹررضازادہ شفق تحریر کرتے ہیں’تاریخ فرشتہ کے مصنف کی روایت ہے کہ دکن کے بہمنی سلاطین کے پانچ ویں حکمراں محمود شاہ بن حسن (٧٦٩-٧٨٠ع) نے جو علم دوست اور ادب پرور تھا،حافظ کو اپنے ملک میں بلانا چاہا محمود شاہ نے ان کو دعوت دیتے ہوے زاد راہ بھی روانہ کیا حافظ دکن کے ارادے سے کشتی میں سوار ہوے اور کشتی طوفان میں پھنس گئی۔شاعر شیراز نے خشکی پر جو ہنگامے اور حادثے دیکھے تھے وہ خودہی کچھ کم نہ تھے،اس نے دریا کی بلا میں مبتلا ہونے سے احتراز کیا اور واپس ہوکر ساحل پر اتر گئے۔اس مسافرت پر پشیماں ہوے ایک غزل لکھ کر بادشاہ کو بھیج دی جس کا مطلع یہ ہے:ومی باغم بسربردن جہاں یک سرنمی اردد۔۔بہ می بہ فروش خلق ماکزیں بہتر نمی ارزد”.(تاریخ ادبیات ایران،ص:٤١٣) مہدی حسن ناصری نے بھی لکھا ہے کہ حافظ ہندوستان نہیں آے تھے۔اسی طرح شیخ سعدی شیرازی کی بھی ہندوستان آمد غیر معتبر ہے۔اس طرح کی معلومات سے کتاب کا ہرورق مزین ہے۔ ٣٣٢/صفحات پر مشتمل یہ پوری کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔اندازبیان صاف اور سلجھا ہوا ہے،نثرصاف وسادہ اور رواں ہونے کے ساتھ تاثیر کی بھی حامل ہے۔کتاب خوبصورت چھپی ہے۔کاغذ عمدہ ہے۔پروف کے اغلاط بھی نہیں کے برابر ہیں۔تین سوروپے اداکرکےمکتبہ جامعہ علی گڑھ یابک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔تبصرہ بہت طویل ہو گیا،اس کے لیے معذرت خواہ ہوں:لذید بودحکایت دراز گفتم۔محمدسلمان سفیان ندوی،دربھنگہ بہار۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button