ناپاکی کی حالت میں روزہ کا آغاز : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سوال:
سحری کے لیے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ میں ناپاک ہوں ۔ وقت بہت تنگ ہے ۔ اگرغسل کرنے لگوں تو سحری کا وقت نکل جائے گا ۔ کیا میں ایسا کرسکتا ہوں کہ پہلے سحری کھالوں ، بعد میں غسل کروں؟ دوسرے الفاظ میں ، کیا میرے روزے کے ابتدائی کچھ منٹ ناپاکی کی حالت میں گزر سکتے ہیں؟
جواب:
روزہ کے دوران میں پاک رہنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر رات میں جنابت (ناپاکی) لاحق ہوگئی ہے تو بیدار ہونے کے بعد بہتر ہے کہ پہلے غسل کرلیا جائے ، بعد میں سحری کی جائے ۔ لیکن اگر وقت تنگ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پہلے سحری کی جائے ، بعد میں غسل کیا جائے ۔ روزہ کا آغاز اگر حالتِ جنابت میں ہو تو اس سے روزہ پر کوئی اثرنہیں پڑتا ۔
روزہ نام ہے متعیّن اوقات میں کھانے پینے اور جنسی تعلق سے بچے رہنے کا ۔ دیگراوقات میں ان کاموں کی اجازت دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أُحِلَّ لَکُمْ لَیْْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَآءِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ، عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ وَعَفَا عَنکُمْ، فَالآنَ بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُواْ مَا کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ و َکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّیَامَ
إِلَی الَّلیْْلِ (البقرۃ:187)
”تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویو ں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے ۔ اللہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ۔ مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جولطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کردیاہے اسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو ، یہاں تک کہ تم کو سیاہئ شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظرآئے۔ یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پوراکرو ۔“
سنتِ نبوی سے معلوم ہوتاہے کہ سحری کا وقت ختم ہوجائے ، اس وقت آدمی حالتِ جنابت میں ہو تو اس کا روزہ درست ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
کان النبي ﷺ یُدرکہ الفجرُ في رمضان من غیر حلمٍ فیغتسل ویصوم۔ (بخاری : 1930 ، مسلم : 1109)
”نبی ﷺ رمضان کی صبح اس حالت میں کرتے تھے کہ آپ حالتِ جنابت میں ہوتے تھے ، احتلام کی وجہ سے نہیں (بلکہ جنسی تعلق کی وجہ سے) ۔ پھر آپ غسل کرتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔“
دوسری ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کا بھی یہی بیان ہے – (بخاری:1932 ،مسلم:1109)
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : اے اللہ کے رسول! میری صبح جنابت کی حالت میں ہوتی ہے ۔ میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں ۔ کیاکروں؟ آپؐ نے جواب دیا : ”میں جنبی ہوتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں توغسل کرتا ہوں اور روزہ رکھتاہوں ۔“ اس شخص نے کہا :”اے اللہ کے رسول! آپ ہماری طرح نہیں ہیں ۔ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں ۔“یہ سن کر آپؐ غضب ناک ہوئے اور فرمایا : ”اللہ کی قسم ، مجھے امیدہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ یہ جاننے والاہوں کہ مجھے کن چیزوں سے بچنا چاہیے ۔“(موطا مالک:793)
یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کسی شخص کو رات یا دن کے کسی وقت میں احتلام ہوجائے ۔ یعنی اس کے روزہ پر کچھ اثر نہیں پڑے گا ۔ وہ جلداز جلد غسل کرلے ۔امام ماوردیؒ نے لکھاہے:
”پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو رات کے وقت احتلام ہوگیا اور اس نے فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہیں کیا اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں ہوا ، یا پھر دن میں احتلام ہوگیا تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔(المجموع للنووی:308/6)