دیوبند

ممتاز عالم دین مولانا جلال الدین عمری کے انتقال سے علمی حلقے سوگوار

اللہ نے مرحوم کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا : مولانا سفیان قاسمی

ملتِ اسلامیہ ہندیہ ایک مخلص رہ نما سے محروم ہو گئی: مولانا احمد خضر شاہ مسعودی

دیوبند، 27؍ اگست (رضوان سلمانی) ممتاز عالم دین وسابق امیر جماعت اسلامی ہند اور درجنوں اہم دینی کتابوں کے مصنف مولانا جلال الدین عمری کا گزشتہ شب طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ مرحوم کے انتقال کی خبر کے بعد ملت اسلامیہ میں غم کی لہر دوڑگئی، وہ گزشتہ کئی روز سے شدید بیمار تھے اور اسپتال میں داخل تھے۔ ان کے انتقال کو دیوبند میں بھی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور علماء نے ان کے انتقال کو ایک بڑا خسارہ قرار دیا۔ آپ کی وفات سے علمی اور مذہبی و ملی حلقوں میں غم کا ماحول ہے، ان کے انتقال پر دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حضرت ؒ کے سانحہ ارتحال کی خبر سے حلقہ ہائے علم و فکر میں بلکہ برصغیر کے تمام اصحاب علم و فضل کے علمی دوائر و اجتماعیات میں پہونچنے والے الم انگیز جذبات کو یکساں انداز میں محسوس کیا گیا اور مرحوم و مغفور کی مدۃ العمر عظیم علمی ،فکری و تصنیفی نیز اشاعت دین کے حوالے سے کی جانے والی عظیم و لائق تقلید جہود و کاوش اور عظیم تر کارناموں سے علمی وابستگی رکھنے والے ہزارہا ہزار افراد ملت نے ایک عظیم خلاء کو محسوس کیا ہے ۔ مرحوم و مغفور کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، خوش خلقی و خوش گفتاری، تواضع و ملنساری، رواں دواں علمی ،فکری وتحقیقی ا یسی دلکش گفتگو کہ مخاطب کی توجہات کو مرکزی موضوع سے بھٹکنے کی فرصت نہ دے اور عہد رواں کے ملی و سیاسی احوال و کوائف پر بصیرت مندانہ نبض شناسی جیسے امتیازات ان کی شخصیت کے تعارفی عناصر کے عناوین اور لائق ستائش اوصاف شمار ہوتے تھے۔ انہو ںنے کہا کہ جد مکرم حضرت حکیم الاسلام اور والد مکرم حضرت خطیب الاسلامؒ سے علمی عظمت اور وقیع تر نسبت کے سبب اخلاص و للہیت پر مبنی نہایت عقیدت مند انہ تعلق اورخصوصا حضرت والدمکرمؒ سے انتہائی قربت وانسیت اورایک طویل عرصہ سے راقم السطور کے ساتھ انتہائی مشفقانہ روابط جوکہ ہر ملاقات میں ان کی علمی ،فکری و عملی عظمت و محبت میں ہمیشہ اضافے کا سبب بنا کرتی تھی۔

جماعت اسلامی ہند،ادارہ تحقیقات اسلامیہ ودیگر باوقار پلیٹ فارم سے مرحوم ومغفور کی علمی وعملی ،فکری واصلاحی ،سماجی وفلاحی شبانہ روز مبنی بر اخلاص و دیانت جہود و خدمات اور ان کی ثمرآور محنتیں ،مدبرانہ فیصلے و اقدامات نہ صرف تاریخ میں ہمیشہ ایک سنگ میل کی حیثیت سے ہی یاد کی جائیں گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ان شاء اللہ نقش اخلاص و وفا کے استعارہ کے طور پر نشان منزل کی جانب کامیاب رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔ دارالعلوم وقف دیوبند کا ماحول اس المناک خبر سے سوگوار بھی اورمصروف دعاء و ایصال ثواب بھی ہے۔ راقم کے واسطے سے جملہ اساتذہ و اراکین ’’دارالعلوم وقف دیوبند ‘‘کی جانب سے تعزیت مسنونہ پیش ہے۔ معروف عالم دین اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا ندیم الواجدی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا سید جلال الدین عمری دور حاضر کے ان گنے چنے افراد میں تھے جنہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں مختلف الجہات خدمات انجام دیں۔ وہ بنیادی طور پر تمل ناڈو صوبہ کے ضلع شمالی آرکاٹ سے تعلق رکھتے تھے لیکن انکی زندگی کا اسی فیصد سے زائد حصہ شمالی ہندوستان کے رامپور علیگڑھ اور دہلی میں گذرا۔ ان علاقوں میں انہوں نے اپنی زندگی کے چھیاسٹھ سالوں میں علمی دینی قرآنی مذہبی سیا سماجی معاشرتی ملی دعوتی تصنیفی وتالیفی شعبوں میں بے لوث طریقہ پر جو خدمات انجام دیں ان کا کوئی بدل نہیں ھے۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے سب سے بڑے امارت کے عہدے پر عرصہ دراز تک فائز رہے اور اس پلیٹ فارم سے ملت کی رہنمائی فرماء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی ارکان میں سے تھے۔مسلم مجلس مشاورت اور دیگر بہت سی تنظیموں کے ذریعہ انہوں نے اتحاد ملت کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جو بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات کی خبر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے شیخ الحدیث و مہتمم مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی کشمیری نے کہا کہ ملتِ اسلامیہ ہندیہ ایک مخلص رہ نما سے محروم ہو گئی۔ انہوں نے کہا مرحوم سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں۔ وہ اپنے مزاجی اعتدال، علمی گہرائی، اخلاقی بلندی اور عالی ہمتی کے اعتبار سے موجودہ دور میں ایک مثال تھے۔ میرے والدِ مرحوم فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ سے بھی ان کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ نوادراتِ امام کشمیری کا اجرا دہلی میں ہوا تو اس کی رسمِ اجرا میں مولانا مرحوم نے بھی بطورِ خاص شرکت کی۔ اس موقع پر بھی مولانا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بعد میں بھی کئی مواقع پر ان سے نیاز حاصل ہوا۔ جتنی بار بھی ان سے ملا ان کی شخصیت کا نقش دل میں بیٹھتا چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا عمری علم دوست اور وقار و وجاہت میں بھی مثالی تھے۔ ملت کے لیے ہمیشہ تڑپتے رہتے تھے۔ ممتاز ادیب اور دارالعلوم وقف کے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا جلال الدین عمری ایک سنجیدہ اور اسلامی فکر رکھنے والی اہم شخصیت تھی، جنہوں نے پوری زندگی اسلامی تعلیم وفکر کی اشاعت میں گزاری، ان کی زندگی کا بنیادی مقصد اور کام انسان کو اخلاقی اعتبار سے آراستہ کرنا تھا، اپنے پائوں پر کھڑے ہونے اور پورے معاشرہ کو ایک نئی سمت بلکہ اسلامی سمت دینے میں دلچسپی تھی، وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے داعی اور آپسی فکر ونظر میں اتفاق کے ماننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے اوپر رحمتیں نازل فرمائے۔جامعہ امام محمد انور شاہ کے استاذِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات مولانا فضیل احمد ناصری نے کہا کہ مولانا عمری کی شخصیت بڑی پرکشش تھی۔ ان کی پوری زندگی علم اور انسانیت کی خدمت میں گزری۔ وہ بڑے مقبول مصنف بھی تھے۔ قلم سے ان کا رشتہ قابلِ رشک حد تک مستحکم تھا۔ عاشق ملت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی قومی صدر آل انڈیا ملی کونسل نے مولانا کے حادثہ فاجعہ کو ملت کا ایک عظیم سانحہ قرار دیا۔انھوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا نے قوم و ملت کی گراں بار ذمہ داریوں کو ایک طویل و عریض مدت تک اپنے کاندھوں پر اُٹھائے رکھا، وہ ہمیشہ ملت کے حوصلوں میں توانائی بھرنے کا کام کرتے رہے،ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ متحرک رہے،دوسری ملی جماعتوں کو ساتھ لے کر ملی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے، اِسی میں انھوں نے اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ صرف کیا ہے۔آپ کی درجنوں کتابوں نے ہمیشہ امت مسلمہ کے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے اور علمی حلقوں میں آپکی تحریروں و مضامین کو خوب پذیرائی ملی۔ضلع صدر آل انڈیا ملی کونسل سہارنپور مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی نے مولانا جلال الدین عمری کی رحلت کو قوم کا عظیم نقصان قراردیتے ہوئے کہا کہ مولانا نے ہمیشہ قوم کی مؤثر نمائندگی اور رہنمائی کی ہے۔ آپ ایک بہترین مقرر کے علاوہ ایک عمدہ قلمکار اور مصنف بھی تھے۔ آپ کے مضامین نہایت بصیرت افروز اور پرمغز ہواکرتے تھے،مولانا مرحوم نے مختلف پلیٹ فارم سے ملک و ملت کو درپیش مسائل کی کھل کر نمائندگی کی۔ یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری حاجی ڈاکٹر عبیداقبال عاصم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا مرحوم کے اخلاق و اوصاف مثالی تھے وہ سادگی عاجزی اور کسر نفسی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے انکی زندگی کا بیشتر حصہ سائیکل پر بسر ہوا جس کے ذریعہ وہ اپنے خانگی امور بھی انجام دیتے علمی انجمنوں کی رونق بھی بنتے اور ملی کاموں میں بھی مصروف رہتے۔

مولانا مرحوم کے انتقال سے جو خلا واقع ہوا ہے بظاہر اسکا پر ہونا بہت مشکل ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انکی خدمات کو قبول فرمائے ان کی سیآت سے درگذر فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت اسلامیہ ہند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔ جامعہ دارالعلوم اسعدیہ للبنات سرساوہ کے ناظم تعلیمات مولانا محمد عثمان خورشیدی نے اپنے تعزیتی پیغام میںکہا کہ مولانا مرحوم ایک باصلاحیت اور سلجھے ہوئے انسان تھے، انہوںنے اپنی پوری زندگی نشرو اشاعت میں گزاری۔ آپ ایک طویل عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔

فوٹو۔ مولانا سفیان قاسمی، مولانا احمد خضر شاہ ، مولاناندیم الواجدی، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا عبداللہ مغیثی، مولانا عبدالمالک مغیثی، ودیگر

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button