مفتی مکرم سنسارپوری احیاء سنت کا ایک حسین گلدستہ تھے، مدرسہ اسلامیہ عربیہ تجوید القرآن مالیر کوٹلہ میں منعقد تعزیت اجلاس میں علماء کا خطاب

دیوبند،28؍ جولائی(رضوان سلمانی) پنجاب کی مشہور و معروف قدیم دینی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ تجوید القرآن مالیر کوٹلہ میں مفکر قوم و ملت ولی کامل حضرت الحاج مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسارپوری نوراللہ مرقدہ خلیفہ حضرت شاہ عبد القادر رائپوری سانحہ ارتحال پر تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اجلاس کا آغاز قاری محمد گلبہار قاسمی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا ، شانِ اقدس میں سرزمین پنجاب کے مشہور نعت خواں قاری محمد مستقیم کریمی بسیاں نے بہترین مترنم آواز میں نعت نبی پڑھی ،بعدازاں مفتی مرغوب الرحمن قاسمی نے حضرت مرحوم کی حیات و خدمات پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مفتی مکرم حسین اپنے وقت کے مشہور عالم دین اور صاحب ارشاد شخصیت تھے ،اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب سے اصلاح امت مسلمہ کا جو کام لیا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی ۔مفتی صاحب ؒ اپنے وقت کے قطب و ابدال تھے امت مسلمہ کے ایک بڑے طبقہ نے آپ سے اصلاحی روحانی تربیتی فیض حاصل کیا۔مفتی صاحب بڑے صاحب کشف بزرگ و ماہر نباض حکیم تھے ،
اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ کے درجات کو بلند فرمائے۔دریں اثنا قاری محمد انس مہتمم مدرسہ تجوید القرآن نے دوران خطاب فرمایا کہ مفتی مکرم سنسارپوری نوراللہ مرقدہ احیاء سنت کا ایک حسین گلدستہ تھے ایسے رجال کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ کا والد محترم قاری محمد شکردین رحمہ اللہ علیہ سے والہانہ تعلق تھا بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے میرے یاد ہیکہ والد صاحب رحمہ اللہ علیہ کبھی بھی کوئی سفر سہارنپور کا ہوا ہو و والد محترم مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ سے ملاقات کیے بنا آ ہوں ہمیشہ ملاقات ہوتی تھی و مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے عمل ذکر و اذکار کا بڑی پابندی کیساتھ اہتمام فرمایا کرتے تھے اور والد محترم نے ضلع مالیر کوٹلہ سے ایک بڑی تعداد میں عوام الناس کا حضرت مفتی صاحب سے اصلاحی روحانی تربیتی تعلق قائم کروایا و ایک کثیر تعداد مفتی صاحب سے الحمدللہ فیض یاب ہوئی ۔
اجلاس کی صدارت فرمارہے حضرت مولانا حافظ محمد سالم برادر اصغر قاری محمد شکردین رحمہ اللہ نے اپنا قیمتی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت سنسارپوری نوراللہ مرقدہ کی رحلت پورے علاقے کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے حضرت کی مجالس و عوام الناس سے ملاقات انکے لیے دعائیں کرنا نصیحت کرنا رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ، حضرت ہر عام و خاص سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرتے آپکی گفتگو بہت اپنائیت والی ہوتی تھی مہمانان کیساتھ آپکا حسن سلوک قابل تقلید تھا ،آپکی ایک ایک ادا سے نظافت و عمدہ ذوق کا اظہار ہوتا تھا آپکا لہجہ گفتگو ہر آنے والے کو اپنا بنا لیتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ کے درجات کو بلند فرمائے ۔مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائے قاری محمد خادم نے تعزیت مسنونہ کے کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب رحمہ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے اور سراپا فیض تھے اور آپکے والد ماجد مولانا محمد اسحاق رحمتہ اللہ علیہ بھی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل تھے انہیں کی تربیت و پرورش کا نتیجہ تھا کہ مفتی صاحب سے اللہ تعالیٰ نے سلوک و احسان کا اتنے بڑے پیمانے پر کام لیا ۔ مولانا راشد مظاہری نے اپنے مختصر تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا قحط الرجال کے اس دور میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں و علماء کرام کا یکے بعد دیگرے رخصت ہونا قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ،ہمیں موجودہ علماء کرام کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ انکے علوم سے استفادہ کرنا چاہیے۔
قاری محمد فرقان احمد گڑھی نے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ واقعی علماء کرام صالحین صدیقین کا یکے بعد دیگرے رخصت ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے ہمیں موجودہ دور میں علماء کرام و صوفیاء عظام سے اپنے روابط کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ تعلق مع اللہ مظبوط ہو و علماء کرام کی غیبت و برائی کرنے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔ اس تعزیتی اجلاس میں خصوصی طور پر تعزیت مسنونہ پیش کرنے کے لیے تشریف لائے معزز علماء کرام مولانا محمد زبیر صاحب باگڑیاں،قاری محمد گلصنوبر ،قاری محمد نفیس احمد گڑھ،حاجی محمد مرسلین بسیاں ،قاری محمد صادق یزدانی،حافظ محمد نوشاد بیگووال ،قاری محمد سراج کمہار ،مولانا محمد رضوان،ماسٹر محمد سلیمان ،ماسٹر عبد المجید ،قاری محمد اکرام ،حاجی محمد انور ،حافظ محمد عبداللہ بہلولوی ،قاری محمد مرسلین سنگھین،قاری محمد قاسم وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔آخر میں تمام حاضرین نے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی اور ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا ۔ صدر محترم کی پر مغز دعاء پر اجلاس کا اختتام ہوا۔