مسلم پرسنل لاء کو ابھی بھی یہ اصرار ہے کہ وہ مسلمانوں کا سب سے معتبر نیز باوقار ادارہ ہے۔لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟

مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نسوانی قضیہ
عدیل اختر
#ومن_ونگ ‘ Woman_wing#
#All_india_Muslim_Personal_Law_Board آلانڈیامُسلمپرسنللا_بورڈ#
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ابھی بھی یہ اصرار ہے کہ وہ مسلمانوں کا سب سے معتبر و معزز نیز باوقار ادارہ ہے ۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟
اس طرح کے دعووں پر اصرار ان حالات میں کیا جارہا ہے جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری سمیت جملہ اکابرین ملت اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں سے ملت کے حساس افراد اور نئی نسل کے تعلیم یافتہ لوگ بالعموم مایوس اور ناراض ہیں ، ان کے تعلق سے ایک عام بے اعتمادی کا ماحول ہے ۔ مدارس سے تعلیم یافتہ نوجوان اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں ان پر تنقید کرتے ہیں ، ان کے طور طریقوں پر بھپتیاں کستے ہیں، ان کے بیانوں اور موقف کا مذاق اڑاتے ہیں، جب کہ اخباروں کے اداریوں اور مفکرین و دانشوروں کی تحریروں میں ان پر نا اہلی ، حکومت کی چاپلوسی اور ملت کے مسائل پر خاموشی کے لئے تنقید کی جاتی ہے ۔
اس کھوئے ہوئے اعتماد و عزت کے ماحول میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خواتین ونگ کو تحلیل کردئے جانے کی خبر آئی اور ونگ کی کنوینر صاحب کا ایک تحریری اور صوٹی میسج سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہوا جس سے پرسنل لاء بورڈ کو چلانے والے افراد پریشان ہیں اور وضاحت نامے جاری کئے جارہے ہیں ۔
27مارچ کو مجلس عاملہ کی میٹنگ سے یہ معلومات باہر آگئی تھیں کہ اس میٹنگ میں وومن ونگ کی سرگرمیوں کو لے کر کچھ لوگوں نے بہت ہڑبونگ کی اور وومن ونگ پر "لگام لگانے” (محاورے کی زبان میں) کے لئے خوب شور مچایا گیا۔ اس ہڑبونگ میں دو فاروقی برادران کا خاص رول تھا جو آپس میں رشتے دار ہیں اور جن کا راست تعلق مولوی محمود مدنی سے ہے اور محمود مدنی کی سرگرمیوں سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان کے تار کہاں سے جڑے ہوئے ہیں ۔
مجلس عاملہ میں وومن ونگ کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرنے کا مطالبہ ہوا اور مسئلہ کے تصفیے کے لئے کمیٹی بنادی گئی ۔یہ بات اگرچہ ہمارے علم میں بھی آگئی تھی اور ہم نے اس کا اشارہ بھی بورڈ کے ایک متحرک ذمہ دار کو دیا تھا لیکن اسے منظر عام پر لانا ہمیں پسند نہ تھا ۔ پر اب جبکہ سب کچھ منظر عام پر ہے تو اسے اپنے صحافتی کالم کا موضوع بنانا کسی بھی طرح نامناسب نہیں ہے بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ میں خواتین کی شمولیت اور سرگرمی کوئی نئی بات نہیں ہے متعدد اہل خواتین بورڈ میں خواتین کی نمائندگی کرتی رہی ہیں ۔ لیکن محترمہ اسماء زہرہ صاحبہ کو ایک ایسے وقت میں مسلم خواتین کی آواز بننے کا موقع ملا جو شرعی اور ملی معاملوں میں مسلم خواتین کے ایمانی موقف کے اظہار کا شدید متقاضی تھا ۔ ایسے وقت میں پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے باقاعدہ خواتین ونگ بنانے کافیصلہ بھی بہت مناسب تھا اور اس ونگ کی کنوینر شپ کے لئے ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ کا انتخاب بھی بہت صائب تھا ۔ ان کی لیاقت و صلاحیت اوردین و شریعت کے لئے ان کی وارفتگی کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گا جس کو اعتراف حق سے کوئی بخل اور تعصب نہ روکے۔
ڈاکٹر اسماء کی قیادت میں پورے ملک میں خواتین سرگرم ہوئیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لیکر متوسط تعلیم پانے والی خواتین بھی ان سرگرمیوں کا حصہ بنیں اور دینی اداروں سے وابستہ خواتین سے لیکر یونیورسٹی اور کالج کے لادین ماحول میں پڑھنے والی آزاد خیال عورتوں تک بھی دین و شریعت کا فہم پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نام بھی پہنچا ۔ بہت سے ناواقف اور بے خبر لوگوں کو بھی معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی کو ئی چیز ہے ۔ ملت اور ملی معاملات کا فہم ہر مسلمان کی اہم ضرورت ہے اور اس سمت میں ڈاکٹر اسماء زہرہ کی کاوشوں سے پرسنل لاء بورڈ کے تحت ایک خاصا موثر و مفید کام پچھلے دنوں میں ہوتا رہا ہے ۔
البتہ ، این آر سی مخالف تحریک کے دوران محترمہ اسماء صاحبہ نے دارلعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب کی جو کلاس لی تھی وہ بڑی حیرت اور جرآت مندی والی بات لگی تھی اور ہم نے سوچا کہ "یا رب ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میں ہے”. یہ چنگاری بھڑکے گی تو آگ لگ جائے گی۔ ہوا یہ تھا کہ دیوبند میں بھی ایک "شاہین باغ” عورتوں نے بسا رکھا تھا. آزاد بھارت میں مسلم خواتین کی ایسی جرآت مندانہ تحریک سے جہاں مسلمانوں کو کچلنے والے حکمران طبقے کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہیں مسلمانوں کی گردن اپنے ہاتھ میں دباکر رکھنے والا حکومت کاحاشیہ بردار طبقہ قائدین بھی ڈرا ہوا تھا کہ اب ہمارا کیا کام رہ گیا ہے ۔ اسی وحشت میں دارالعلوم کے مہتمم صاحب حکومت کے ایلچی بن کر دھرنے کے مقام پر پہنچے اور خواتین سے اپیل کی کہ دھرنا ختم کریں اور اپنے گھروں کو واپس جائیں ۔ لیکن مولانا صاحب کا یہ ایلچی پن مسلمانوں کے عام موڈ کے خلاف اور تحریک شاہین باغ کو نقصان پہنچانے والا ایک عمل تھا اس لیے اس پر سخت ردعمل آیا، اور محترمہ اسماء زہرہ صاحبہ کا بھی ایک آڈیو میسج خوب وائرل ہوا ۔ اس میں کہی گئی باتیں غلط نہ تھیں لیکن لب ولہجے اور الفاظ کی شدت سے اس ذہنی کیفیت کی عکاسی ہو رہی تھی جو اس وقت ہر حساس مسلم مرد اور عورت کے ذہن کی تھی۔ ایک منصب بردار خاتون کی حیثیت سے انہیں اپنا پیغام ذرا مصلحت اور نزاکت کے غلاف میں لپیٹ کر دینا چاہیے تھا جیسا کہ ہمارے یہاں عام وتیرہ ہے ۔ چنانچہ ہمارے خیال میں یہ ان کا ایسا فالٹ تھا جو ان سے رقابت رکھنے والوں کے لئے مخالفت کا پہلا بہانہ بن سکتا تھا ۔
خواتین ونگ کی کنوینر کا قصور یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ خواتین کو ایک تنظیم کی صورت میں منظم کرنے لگی تھیں، بغیر رائے مشورے کے کام کر رہی تھیں، میڈیا میں بورڈ کی ترجمان بن رہی تھیں، اپنے دائرہ کار سے باہر جاکر سرگرمیاں انجام دے رہی تھیں۔ وغیرہ وغیرہ. اس کے علاوہ ان کے ذاتی ٹویٹس پر غصہ جتایا گیا جب کہ یہ غصہ جتانے والےخود اس کے لئے آزاد ہیں کہ جو چاہیں کہتے پھریں، جو چاہیں کرتے رہیں۔
سوال یہ ہے کہ وومن ونگ بنائے جانے کے وقت کیا کوئی اسٹیٹمینٹ آف مینڈٹ جاری کیا گیا تھا؟ اگر ایسا ہوتا تو مینڈیٹ کے خلاف ورذی کاالزام تسلیم کیا جاتا ۔ چوں کہ ایسا نہیں تھا اس لیے وہ بورڈ کے صدر و جنرل سکریٹری کو اعتماد میں لے کر پروگرام چلا رہی تھیں، اور جیسا کہ ان کا کہنا ہے، انہوں نے ذمہ داروں کے علم میں لاکر یا انہیں آمادہ کرکے میڈیا اور سیاسی شخصیات کے سامنے شریعت سے متعلق معاملات کو پیش کیا۔ اس طرح کی خود اعتمادی اور صلاحیت ہمارے یہاں بہت کم ہے اور عورتوں میں تو اور بھی کم ہے۔ ان کے پاس نہ صرف اظہار کی صلاحیت ہے بلکہ ان کی اسلامی فکر واضح اور بے جھول ہے، آئیں بائیں شائیں نہیں ہے، کتمان حق نہیں ہے، مرعوبیت و بزدلی نہیں ہے۔ یہ ان کے وہ اوصاف ہیں جو انہیں ایک قیمتی اور قابل قدر خاتون بناتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ایسی خاتون کی قدر اور ہمت افزائی کرنے کے بجائے، پرسنل لاء بورڈ کو اپنی مرضی سے چلانے کا دبدبہ رکھنے والے لوگوں کے دباؤ میں بورڈ کی مجلس عاملہ نے وومن ونگ کی کنوینر کے پر کترنے سے اتفاق کرلیا اور پوری وومن ونگ کو تحلیل کرنے کا فرمان جاری کردیا گیا۔
بودڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری صاحب میں اگر خود اعتمادی ہوتی اور بڑبولے لوگوں کے دباؤ میں آنے کے بجائے وہ اپنی صواب دید سے کام لے سکتے تو ان کا صحیح موقف یہ ہوتا کہ ایک بیٹی سمجھ کر شفقت آمیز انداز میں مخلصانہ طریقے سے کچھ ہدایات کی پابندی کی تلقین کردیتے۔ ڈاکٹر اسماء صاحبہ کو ہم نے جتنا سمجھا ہے اس کے اعتبار سے ہمیں یقین ہے کہ وہ صدر اور جنرل سکریٹری صاحب کو مایوس نہ کرتیں، اور بالفرض ایسا ہوتا تو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا اخلاقی حق بورڈ کی مجلسِ عاملہ کو حاصل ہوتا۔
اس لئے مجلس عاملہ کی کارروائی, کارکردگی اور فیصلہ لائق اعتبار نہیں ہے۔ ہماری نظر میں یہ ایک سیاسی انداز کی کارروائی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں سیاست کاری کا عمل دخل پرانا ہے، جس کسی کو حاوی ہونے کا موقع ملا ہے اس نے امانت و دیانت کی باریک دھار پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق بورڈ کو چلانے کے لئے سیاسی ڈھنگ اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن مرحوم علی میاں رحمتہ اللہ علیہ کا اپنا ایک رعب تھا، اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کا اپنا ایک دبدبہ تھا، عبدالرحیم قریشی صاحب اپنی ایک آزادانہ رائے اور حتمی موقف رکھتے تھے اور مرحوم مولانا ولی رحمانی صاحب بھی کسی کے رعب میں نہ آتے تھے۔ یہ لوگ جب تک تھے پرسنل لاء بورڈ اوپر تھا اور مدنی خاندان کی جمیعت اس کے سامنے بونی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ موجودہ صدر اور جنرل سکریٹری خاموش موقف اور کمزور آواز رکھنے والے بزرگ ہیں۔ اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مدنی خاندان کے سامنے بہت کمزور پڑ چکا ہے۔
27 مارچ ، 2022 کی میٹنگ میں جب وومن ونگ اور اس کی کنوینر کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں تو جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کو بھی اپنی گھٹن دور کرنے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی کے افراد کی یہ ایک پرانی کمزوری ہے کہ یہ اسلامی تحریکی فکر کی کسی دوسری جماعت کو اپنے متوازی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اسی اجارہ داری والے رویے کی وجہ سے ان لوگوں نے ایک آزاد طلبہ تنظیم کو اپنا اخلاقی تعاون جاری رکھنے کے بجائے خود اپنی ایک طلبہ تنظیم کھڑی کی جس کے افراد کی ذہن سازی دوسری تنظیم کے تئیں رقیبانہ اور حریفانہ انداز سے ہوئی۔ اسی رقابت میں اس تنظیم کو بدنام کرنے میں جماعت کے بعض افراد بھی معاون بنے اور تنظیم پر پابندی کو اپنے لئے راحت کے طور پر محسوس کیا گیا اور سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ان نالائقوں کی حرکتیں ہی ایسی تھیں۔
اسی رقابت کے جذبے میں جماعت نے پی ایف آئی کو کبھی پسند نہیں کیا۔ پی ایف آئی اور اس کے افراد کے تعلق سے اپنے حلقہ اثر میں ہمیشہ ناگواری ظاہر کی اور ایک منفی تاثر کو ہوا دی۔ جماعت کا طریقہ یہ رہا ہے کہ کفر اور دہریت پھیلانے والی تنظیموں سے تو روابط رکھے گی، مشترکہ ایشوز پر اتحاد کرے گی، لیکن تحریکی فکر کی کسی دوسری جماعت کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرے گی۔ جماعت اسلامی کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ تنظیموں کا کوئی وفاق خود اپنے آپ میں ایک تنظیم بن کر کام نہ کرے اور خود اس کے متوازی کھڑا نہ ہو۔ آل انڈیا ملی کونسل سے بھی جماعت اس اندیشے میں مبتلا رہی، مشاورت کو بھی اسی احتیاط کے ساتھ برتا گیا اور پرسنل لاء بورڈ میں بھی جماعت اسلامی اس چیز پر پورا زور لگاتی ہے۔
جماعت اور دوسری مسلم تنظیموں کے اسی بخل اور اڑیل پن کی وجہ سے، نیز مسلکی و سیاسی اختلافات کے پیش نظر یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دائرہ کار صرف شریعت کے تحفظ تک محدود رہے گا۔ لیکن اس پالیسی کو ایک حکم وحی کی طرح پرسنل لاء بورڈ پر نافذ کرایا جاتا ہے۔ مگر منتشر مسلمانوں کے ایک مشترک پلیٹ فارم کی وجہ سے اسے ملت کا اعتماد حاصل ہوا اور حکومت و اعدائے اسلام کے لئے یہ ایک دیوار بن کر کھڑا ہوا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اعتبار اور وقار اس وجہ سے قائم ہوا تھا کہ اس نے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے ایک شریعت مخالف فیصلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے بے اثر کرانے کے لئے جہاد کیا۔ مسلمانوں کی دینی وحدت اور جذبہ جاں نثاری کو اربابِ اقتدار کے سامنے ظاہر کیا۔
اس کے بعد بابری مسجد کی قانونی لڑائی پورے تسلسل اور عزم کے ساتھ لڑی اور تمام تر دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر آخر تک قائم رہا۔ عدالت کا فیصلہ ہر حال میں ماننے والی بات سے بہت سے دین دار مسلمان متفق نہیں تھے، لیکن ایک منطقی موقف اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا اس لئے بورڈ کے اس موقف کے ساتھ ملت کھڑی رہی۔ اور جب ایک مقبول عام مولانا نے کفر کے جھانسے میں آکر ایک متکبرانہ طرز عمل اختیار کیا اور بورڈ سے بغاوت کی تو ملت نے انہیں ریجکٹ کردیا۔
اس لئے آج جو لوگ اس کی مثال میں اسماء زہرہ صاحبہ کے خلاف اسی طرح کی تادیبی کاروائی کی خواہش ظاہر کررہے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ ملت کسی فرد یا کمیٹی کے ساتھ نہیں ہے، ملت کی تائید صحیح مؤقف کو حاصل ہوگی چاہے وہ موقف فرد کا ہو یا بورڈ کی عاملہ کا۔
ملت کے عام افراد کے لئے یہ جاننا مفید ہوگا کہ بورڈ کی مجلس عاملہ کس طرح کام کرتی ہے۔ عاملہ کے اکثر وبیشتر ارکان دہلی سے دور رہتے ہیں اور معاملات سے بہت زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے ہیں۔ اصل کار پردار چند افراد ہیں جو الگ الگ وجوہات سے بہت عمل دخل رکھتے ہیں۔ یہ افراد میٹنگ کا ایجنڈا بنانے میں جنرل سکریٹری کی مدد کرتے ہیں، کبھی کسی معاملے میں جنرل سکریٹری کو آمادہ کرتے ہیں، کبھی صدر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ اپنی عمر سے تھکے ہوئے اور اپنے مزاج کی وجہ سے بے رغبتی رکھنے والے صدر صاحب بھی، اور اپنے گوناگون مشاغل میں مصروف رہنے والے جنرل سکریٹری صاحب بھی اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ کسی پالیسی یا فیصلے، بیان یا خط کا ڈرافٹ لکھنے والے ڈرافٹ دے دیں، وہ ایک نظر دیکھ کر اس پر صاد کردیں اور دفتر سے ان کے نام سے وہ جاری ہوجائے۔
یہی لوگ آپس میں ایشوز پر بات کرتے ہیں، جنرل سکریٹری صاحب سے مشاورت کرتے ہیں، میٹنگ کی تاریخ اور ایجنڈے پر اتفاق کرکے صدر صاحب کی اجازت سے میٹنگ کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ میٹنگ کے شرکاء کے سامنے مسئلے کو بیان کیا جاتا ہے، یہ شرکاء اپنی عقلوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں کرتے، کوئی جرح نہیں کرتے، ذمہ داران کا موڈ دیکھتے ہوئے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تکنیکی یا قانونی مسائل سے متعلق کمیٹی کے کنوینر کی رپورٹ سنی جاتی ہے اور عموماً اس کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ اس طر ح کچھ افراد کے نجی جذبات یا افکار ایک اجتماعی فیصلے کا روپ لے لیتے ہیں۔ میٹنگ میں افراد کی شرکت بھی متاثر رہتی ہے البتہ میٹنگ بلانے والے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کورم پورا ہوجائے۔ اس کے لئے اپنے خاص تعلق والوں کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ ضرور شرکت کریں۔ وہ آتے ہیں اور ووٹ دے کر چلے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرسنل لاء بورڈ اب چند افراد کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ مختلف الخیال ہوتے ہوئے بھی باہمی مفادات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور یہی معاملہ وومن ونگ کے ساتھ ہوا ہے۔ فاروقی برادران اور جماعت اسلامی کے افراد نے مل کر وومن ونگ کو ختم کرانے کا فیصلہ مجلسِ عاملہ سے کرادیا ہے۔
اس پر مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسماء زہرہ صاحبہ کے خلاف بورڈ کے فیصلے کو حمایت دینے کے لئے بورڈ کی دیگر خواتین کے بیانات جاری کرائے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ معاملہ نسوانی قضئے کی شکل لے رہا ہے۔ لیکن ایسی تمام خواتین کو ہم مشورہ دینا چاہیں گے کہ اس معاملے میں آلہ کار نہ بنیں اور رقیبانہ جذبات سے خود کو بچائیں ۔ اس کے بجائے بورڈ کے ذمہ داروں کو یہ پیش کش کریں کہ ہم کنوینر صاحبہ کی مشیر بنیں گی، ان کی مدد کریں گی، بورڈ کے صدر اور سکریٹری صاحب کو اعتماد میں لے کر خواتین کی اس نئی بیداری کو آگے لے جائیں گی، براہ کرم تربیت کریں، پر کترنے کا فیصلہ نہ کریں۔ ان خواتین کو یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے کہ صلاحیت و استعداد بھی اللہ کی ایک دین ہے، جس کو جتنی چاہتا ہے دیتا ہے۔ آپ کی کسی بہن کو اللہ نے قیادت کی بہترین صلاحیت دی ہے تو آپ بھی اپنی صلاحیتوں سے ان کو مزید تقویت پہنچائیں۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ پورا معاملہ دو رجحانوں کے بیچ کشمکش کی ایک علامت ہے۔ ایک رجحان یا موقف حکومت کی پالیسیوں اور اکثریت کے جذبات سے موافقت قائم رکھنے کا ہے تاکہ زندگی آرام سے گزرجائے، اور دوسرا موقف ملٹ کو سنبھالنے، بچانے، جگانے اور دشمن سے مزاحمت کا ہے۔ پہلا موقف مبینہ قائدین اور جماعتوں نے اپنایا ہوا ہے، جب کہ محترمہ اسماء زہرہ دوسرے رجحان کی ایک علامت بن کر ابھری ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ موافقت ، بے عملی اور ریت میں سر چھپانے والا موقف ملت کے لئے موت ہے، جب کہ مزاحمت کا موقف ملت کے اندر زندگی اور عزت نفس کی ایک علامت ہے۔ چنانچہ ہم اسی مزاحمت والے موقف کے ساتھ ہیں۔
اسلام زندہ باد، ملت اسلام پائندہ باد