مدد کے لیے پکارتی خاتون بلاگر والد کے ہاتھوں قتل

عراقی بلاگر طیبہ العلی کی والد کے ہاتھوں ہلاکت کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد سے عراقی عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
بلاگنگ کی رسیہ عراقی دوشیزہ کو اس کے والد نے اس وقت گلا دبا کر قتل کر دیا جب وہ 25 ویں گلف چیمپئن شپ میں شرکت کے لیے ترکی سے عراق واپس آئی تھی۔
والدہ نے بلایا، والد نے مار دیا
تفصیلات کے مطابق مقتولہ کچھ عرصہ قبل اپنے خاندان کے ساتھ مسائل کی وجہ سے ترکی چلی گئی تھی جہاں وہ محمد الشامی نامی شامی نوجوان سے شادی کرنا چاہتی تھی تاہم اس کا خاندان اس شادی سے خوش نہیں تھا۔
اس واقعے کے بعد سے وہ استنبول میں رہائش پذیر تھی، لیکن اپنی والدہ کے کہنے پر وہ عراق واپس آ گئی۔
أنا و منذ زمن بعيد أعتقد أن قتل النساء و حملات التحريض ضدهن و التضييق عليهن في العمل و المنزل و الشارع هو جريمة منظمة يرتكبها مجتمعٌ اتفق كلهُ بطريقة عجيبة و منسقة تبدأ من القوانين وحتى اصغر معتوه يقف على ناصية شارع ،كلهم اتفقوا على قتلنا جسدياً معنوياً و نفسياً #حق_طيبة_العلي pic.twitter.com/KoaQGvmsev
— Safa (@Safa_Ali02) February 1, 2023
عراق میں داخلے کے بعد سے اسے مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ جس کا اعلان اس نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے ذریعے متعدد بار کیا اور سکیورٹی حکام سے تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق قاتل نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو پولیس کے سامنے پیش کردیا ہے۔
تاہم عراقی عوام میں اس واقعے پر شدید غصہ پایا جاتا ہے کہ مقتول لڑکی کی جانب سے مدد کی اپیلوں اور سماجی ذرائع ابلاغ پر معاملے کی تشہیرکے باوجود پولیس جرم ہونے سے نہ روک سکی۔
واضح رہے کہ ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر ہیش ٹیگ "احموا_طيبة” کئی روز سے ٹرینڈ کررہا تھا۔
ایک نیا جرم
عراق میں انسانی حقوق کی تنظیم "آیسن” نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ طیبہ العلی کا قتل "جھوٹی غیرت” کے نام سے ہونے والا ایک نیا جرم ہے۔
تنظیم کے مطابق لڑکی کو اس کے والد نے بغداد سے زبردستی دیوانیہ گورنری منتقل کرنے کے بعد اس وقت گلا گھونٹ کر قتل کیا جب وہ سو رہی تھی۔
سوشل میڈیا صارفین نوجوان بلاگر کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر غم اور غصے کا اظہار کے ساتھ ساتھ ساتھ مجرموں کے احتساب اور خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کے مؤثر نفاذ کے مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔