قومی

لوک سبھا اسپیکر کی وضاحت ، کسی لفظ پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے

نئی دہلی ، 14جولائی (ہندوستان اردو ٹائمز) پارلیمنٹ کے ارکان بعض اوقات ایوان میں ایسے الفاظ، جملے یا تاثرات استعمال کرتے ہیں، جنہیں پھر اسپیکر یا اسپیکر کے حکم سے ریکارڈ یا کارروائی سے باہر کر دیا جاتا ہے۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی کے دوران کئی الفاظ کے نکالے جانے کے بعد اپوزیشن نے حکومت پر حملہ تیز کر دیا ہے۔ اس دوران لوک سبھا اسپیکراوم برلا نے اس پر بیان دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی الفاظ پر پابندی نہیں ہے، نکالے گئے الفاظ کا ترتیب جاری ہے۔لوک سبھا اسپیکراوم برلا نے کہا کہ یہ میرے نوٹس میں آیا ہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے کچھ غیر پارلیمانی الفاظ کو حذف کر دیا ہے۔ یہ لوک سبھا کا عمل ہے، یہ 1959 سے چل رہا ہے۔

پارلیمنٹ میں بحث اور بات چیت کے دوران الزامات لگتے ہیں۔ پریزائیڈنگ افسر کچھ الفاظ حذف کرنے کی ہدایت کرتا ہے، جو لوگ بحث کر رہے ہیں انہیں پارلیمانی کنونشن کا علم نہیں، ضرورت پڑنے پر حذف کر دیا جاتا ہے، یہ تمام اراکین کے علم میں ہے، ہمیں یہ حق حاصل ہے۔ پابندی نہیں لگائی گئی، ا س لئے ابہام پیدا نہ کیا جائے۔غیر پارلیمانی الفاظ کی ایک بڑی لغت ہے، اس کے 1100 صفحات ہیں۔ 1954 سے ہٹا دیا گیا۔ 1986، 1992، 1999، 2004، 2009، 2010 کے بعد سے ہر سال باقاعدگی سے نکالے جاتے ہیں۔ الفاظ کی پابندی نہیں ہے۔ جب بحث کے دوران کوئی لفظ ہٹا دیا جائے تواس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ پراعتماد ہو۔ کسی سے بولنے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ لیکن غیر پارلیمانی یا نامناسب نہ کہیں۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اگر کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کس تناظر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ حکومت کبھی بھی لوک سبھا کو ہدایت نہیں دے سکتی اور نہ ہی کسی لفظ پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ اگر کوئی چینل غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرتا ہے تب بھی اسے ہٹانے کی ہدایت ہوتی ہے اور ممبر اس کی شکایت کرتا ہے تو معاملہ استحقاق کمیٹی کے پاس جائے گا۔اہم بات یہ ہے کہ ایک لفظ کس تناظر میں بولا جاتا ہے۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button