دیوبند

علاقہ کی ممتاز بزرگ شخصیت حضرت مولانا عبدالغنی کشمیری کا 100سال کی عمر میں انتقال

علاقہ اور علمی حلقوں کی فضا مغموم،تدفین آج ،نامور علماء کرام کا اظہار تعزیت

دیوبند،19؍ جنوری(رضوان سلمانی) علاقہ کے ممتاز بزرگ و روحانی شخصیت اور حضرت شاہ عبدالقادررائے پوری ؒ کے خلفیہ حضرت مولانا عبدالغنی صاحب کشمیری ازہری (مگن پورہ بادشاہی باغ) کا طویل علالت کے باعث سہارنپور کے ایک اسپتال میں دوران علاج آج صبح انتقال ہو گیا ہے۔ مرحوم گزشتہ کئی ماہ علیل تھے، پہلے کشمیر اور اب سہارنپور میں زیرِ علاج تھے، گزشتہ کئی روز سے طبیعت زیادہ بگڑ گئی ،جس کے بعدجمعرات کی صبح تقریباً دس بجے انہوں نے آخری سانس لی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ انکے کے مریدین کے مطابق حضرت کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی۔

 

ان کے انتقال کی خبر سے علمی حلقوں، علما کرام، طلباء ، متعلقین، مریدین اور متوسلین سمیت دنیا بھر میں پھیلے ان کے چاہنے والوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔مرحوم نہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ جامعہ ازہر مصر کے بھی فاضل تھے،مرحوم علاقے کی ممتاز بزرگ او روحانی شخصیت تھے، وہ گزشتہ قریب نصف صدی سے اس خطہ میں دینی، علمی، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دے رہے تھے، دنیا بھر سے لوگ ان کی روحانی اور اصلاحی مجلس میں شامل ہونے پہنچتے تھے، مرحوم عوام و خواص میں یکساں طور مقبولیت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے علماء کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی ان کے انتقا ل پر شدید رنج وغم کی لہر دوڑ گئی اور کثیر تعداد میں عوام ،علماء کرام اور نامور شخصیات نے مدرسہ نظامیہ مگن پورہ بادشاہی باغ پہنچ کر آخری زیارت کی۔ نماز جنازہ آج بعد نماز جمعہ مدرسہ نظامیہ مگن پورہ بادشاہی باغ میں ادا کی جائیگی اور وہیں تدفین عمل میں آئے گی۔

 

ان کے انتقال پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ،جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی، صدر جمعیۃ علماء مولانا سید محمود اسعد مدنی دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی اورجامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے امین عام مولانا سید شاہد الحسنی وغیرہ نے افسوس کااظہار کیا۔دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے مرحوم کے انتقال کو علمی اور اصلاحی میدان کے عظیم خسارہ سے تعبیر کیا ہے، انہوںنے کہاکہ مرحومہ نہ صرف علم کا سمندر تھے بلکہ انہوں نے جس طرح عوام میں روحانی اور اصلاحی دعوتی تبلیغ کا فریضہ انجام دیاہے ،اس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو قرب خداوندی حاصل ہوئی ہے۔ اللہ پاک حضرت مرحوم کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ اسی سلسلہ میں اپنے تعزیتی پیغام میں آل انڈیا ملی کونسل کے قومی صدر مولانا حکیم عبداللہ مغیثی نے نہایت ہی دکھ و رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علامہ مرحوم نہایت متقی، پرہیز گار، ملنساراورخدا رسیدہ بزرگ تھے، آپ ملت ہند کے قابل فخر سپوت تھے جن کے تقدس اور تقوی کی عالم میں شہرت اور مقبولیت تھی، اپنی ذہانت وذکاوت کی وجہ سے مختلف علوم وفنون اورخاص طورپر فقہ اورحدیث میں ممتاز جانے جاتے تھے، مسلسل علم حدیث کی خدمت کرتے رہے، آپ کے مواعظ کے مرکزی موضوعات اتباع سنت، اصلاح معاشرت، درستگی اخلاق واعمال، تزکیہ واحسان، اہل تقوی کی صحبت تعلیم دین کی اہمیت تھے۔ اللہ رب العزت علامہ علیہ الرحمہ کو جنت الفردس میں اعلی و بالا مقام عطافرمائے، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے، ان کے دعوتی، اصلاحی کوششوں اور روحانی سلسلہ کو جاودانی عطا فرمائے۔ آمین۔ممتاز عالم دین مولانا ندیم الواجدی اور دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی شریف خان قاسمی نے بھی مرحوم کے انتقال پر گہرے افسوس کااظہار کیا اور کہاکہ مرحوم دارالعلوم دیوبند اور جامعہ ازہرکے فاضل تھے، جنہوں نے علم دین کے سلسلہ کو فروغ دینے کے ساتھ بڑے پیمانے دعوتی اور اصلاحی فکر کو عام کیا ہے، جس کے سبب مرحوم عوام و خواص میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے،

 

ان کا انتقال یقینی طور پر ایک عہدکا خاتمہ ہے اور پورے علاقہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے،اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر درجات بلند فرمائے ۔ اس سلسلہ میں جامعہ رحمت گھگروں میں ایک تعزیتی نشست کااہتمام کیاگیا۔ اس موقع پر جامعہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی نے سخت رنج و الم کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے میرے مشفق و مربی علامہ مفتی عبدالغنی ازہری الشاشی قدس سرہ کو بہت طویل زمانہ عنایت فرمایا، یقینا آپ کا وجود بہت بڑی نعمت تھا، جو اللہ نے واپس لے لی اور ہم سے قدر نہ ہوسکی، حضرت علامہ علیہ الرحمہ کو اللہ نے ایسی تواضع وانکساری عطا فرمائی تھی کہ بچپن ہی سے اپنے اساتذہ کرام میں منظور نظر رہے اور سلوک کی راہ میں شیخ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ علیہ کی نظروں میں ایسے محبوب ہو گئے جس کی حد نہیں،دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ جامعہ ازہر مصر تشریف لے گئے اور پروفیسر کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں ایک عرصہ دراز تک احمد العلوم خانپور میں حدیث شریف کی خدمت انجام دی، آپ دارالعلوم نظامیہ مگن پورہ بادشاہی باغ کے بانی و مہتمم بھی تھے اور تاحیات وہیں کے ہوکے رہے۔

 

ان کے وجود کی روشنی نے دور دراز کے علاقوں کو روشن اور درخشاں کر دیا، ان کی قیامگاہ طالبین وسالکین کا مرجع وماوی بنی رہتی تھی، آپ ایک ایسی ممتاز اور نہایت جلیل القدر شخصیت تھی جن کی طرف دل کھنچتا تھا اور جن کو دیکھنے سے آنکھیں سیر نہیں ہوتی تھیں۔ بعد ازیں دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کیا گیا۔علاوہ ازیں حضرت مرحوم کے انتقال پر دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تحفظ ختم نبوت کے نائب ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری، رکن شوریٰ مولانا محمد عاقل قاسمی، کل ہند رابطہ مساجد کے قومی سکریٹری مولانا عبداللہ ابن القمر الحسینی،جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے رکن مولانا شمشیر قاسمی،ضلع سکریٹری مولانا ابراہیم قاسمی ،مفتی عارف مظاہری ،مفتی ساجد کھجناوری، جامعۃ الشیخ کے مہتمم مولانا مزمل علی قاسمی ، مفتی عبدالخالق قاسمی الماجروی،رکن پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن ،بی ایس پی لیڈر عمران مسعود سمیت علاقہ کی سرکردہ شخصیات اور نامور افراد نے گہرے رنج و الم کااظہار کیا۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button