قومی

عصمت دری کے متأثرہ خاندان کی داستان : آسارام کی حرکتوں نے آنِ واحد میں ساری ’اندھ بھکتی‘ ختم کردی!

نئی دہلی،31جنوری (ہندوستان اردو ٹائمز) اپنے آشرم میں مقیم رہنی والی اپنی خاتون شاگرد کے ساتھ عصمت دری کے ہندو مذہبی پیشوا آسارا م کو گاندھی نگر کی عدالت نے عصمت دری کیس میں سزا سنائی ہے۔ سیشن کورٹ نے آسارام کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ مقدمہ مجرم آسارام کے خلاف سال 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ آسارام کو جس معاملہ میں سزا دی گئی ہے ،اس کی شکایت احمد آباد کے چاند کھیڑا پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی تھی۔اس شکایت کے مطابق متاثرہ خاتون کے ساتھ 2001 سے 2006 کے درمیان کئی بار آشرم میں ہی عصمت دری کی گئی تھی۔ متاثرہ خاتون نے مجرم آسارام اور دیگر 7 افراد کے خلاف عصمت دری کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس میںمجرم آسارام کی بیوی اور بیٹی کو بھی ملزم بنایا گیا تھا۔ حالانکہ عدالت نے صرف ہندومذہبی پیشوا مجرم آسارام کو سزا سنائی ہے، بقیہ دیگر ملزمان کو ثبوت کی کمی کی وجہ سے رہا کر دیا گیا ہے۔ آسارام کی سزا کے بعد متاثرہ کے گھر والوں نے بھی اپنی دردناک کہانی سنائی ہے۔

متأثرہ خاندان نے ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ آسارام کے ساتھ تعلق سال 2002 میں ہوا تھا، اس وقت مجھے یہ سوچ کر بھی غصہ آتا ہے کہ یہ فیصلہ میں نے کیوں کیا گیا؟ وہ دور مختلف تھا۔ اچھا کام ہو رہا تھا۔ پیسے کی کمی نہیں تھی لیکن میں اداسی کا شکار تھا۔ دل میں اس اداسی سے نجات حاصل کرنے کا تجسس تھا۔ اسی دوران خاندان آسارام سے جڑ گیا اور طرز زندگی بھی بدلنے لگا۔ گھر میں تفریحی چینلوں کے بجائے مذہبی چینل ٹی وی چلنے لگے، آشرم کی کتابوں نے اخبارات اور رسائل کی جگہ لے لی ۔

 

متاثرہ کے خاندان نے مزید کہا کہ اس خاندان نے آسارام کے آشرم اور اس کی اندھ بھکتی میں بہت پیسہ ضائع کیا۔ شروع میں وہ اپنی کمائی کا 10 فیصد اس پر خرچ کرتے تھے۔ اس کے بعد آسارام نے اس کا دماغ کچھ اس طرح خراب کرنا شروع کردیا، وہ کہتا تھا کہ پیسے رکھ کر کیا کروگے، اسے مذہب کے کام میں لگانا چاہیے۔ اس کے بعد ہم نے اپنی کمائی کا 80 فیصد تک اس پر خرچ کرنے لگے شہر میں ست سنگ کا اہتمام کیا، آشرم کے لیے زمین خریدی، مجرم آسا رام کہتاتھا کہ آپ کی آنے والی نسلیں صدقے سے زندہ رہیں گی۔

آسارام کی گھناؤنی حرکتوں کو یاد کرتے ہوئے متأثرہ خاندان نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہمیں آسارام کے گروکل کے بارے میں پتہ چلا۔ بیٹی جب ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی تو اسے گروکل میں داخل کرایا گیا۔ وہ اس گروکل میں پانچ سال تک رہی۔ جب وہ 12ویں جماعت میں تھی تو پہلی بار اس کے کالے کرتوتوں کا علم ہوا۔ اس نے میری بیٹی کے ساتھ جو کیا اس کے بعد دنیا ہی بدل گئی،ہماری اندھ بھکتی یک لخت ختم ہوگئی ، پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس کے بعد خاندان نے جو کچھ سہا وہ بہت مشکل دور تھا۔ آسارام کے بھکت ہمارے خلاف ہو گئے تھے۔ دھمکیاں ملی، ہراساں کیا گیا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ اب جب عدالت نے اسے مجرم قرار دیا تو بیٹی بہت خوش ہوئی۔ اس پوری جنگ میں ہم پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ میری بیٹی اور پورا خاندان 30 جنوری کی رات کو سکون سے سوئے تھے جب اسے سزا دی گئی۔ عدالت کا فیصلہ آتے ہی ہم نے اہل خانہ میں مٹھائیاں تقسیم کیں اور جشن منایا۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button