دہلیقومی

عدالت عظمیٰ کے نام : مسلم لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ،پرسنل لاء اور ’پی سی ایم اے‘ سے متعلق سماجی کارکنان کا کھلا خط

نئی دہلی،19جنوری (ہندوستان اردو ٹائمز) مسلم خواتین کے امور پر گہری نظر رکھنے والی کچھ سماجی کارکنان نے سپریم کورٹ کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ ایک نابالغ لڑکی کی بلوغت کے بعد اس کی شادی کی تقدیس سے متعلق ایک حساس سماجی اور مذہبی مسئلہ پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے جس نے 15 سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا۔

خط میں آگے لکھا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے حوالے سے بچوں کی شادی پر مختلف عدالتوں کے متضاد فیصلے اس لیے سامنے آئے کہ بچوں کی شادی سے متعلق قانون مسلم کمیونٹی پر اس کے اطلاق کے بارے میں مبہم ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چائلڈ میرج سے متعلق تمام قوانین، بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ، 2006 یا جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (POCSO) ایکٹ کو واضح طور پر مسلم کمیونٹی پر نافذ کیا جائے تاکہ مسلم خواتین اور لڑکیاں حقوق کے تحفظ میں بنیادی قوانین کا فائدہ اٹھائیں۔سپریم کورٹ کو لکھے گئے کھلے خط میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بچوں کی شادی پر پابندی کا قانون تمام شہریوں کے لیے ہے، لیکن پھر بھی مسلم کمیونٹی پر واضح یا غیر واضح طور پر نافذ نہیں ہوا ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے ’’سپریم کورٹ نے ابھی تک اس پر کوئی مستند فیصلہ نہیں دیا ہے، حالانکہ 2017 کا فیصلہ کہتا ہے کہ بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ 2006 (PCMA) سب پر نافذ ہوتا ہے۔ کچھ ہائی کورٹس (پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ) ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ پرسنل لا PCMA پر حاوی ہو سکتے ہیں، اور گجرات و کرناٹک جیسی کچھ ہائی کورٹس کا کہنا ہے کہ PCMA پرسنل لاء پر غالب آ سکتا ہے۔خط میں قرآن پاک کا بھی حوالہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قرآن کم عمری کی شادی کے حق میں نہیں ہے ،جبکہ شرعی تفہیم یہ ہے کہ بلوغت یعنی 15 سال شادی کی عمر ہے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک کامیاب اشتراک پیدا کرنا ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان محبت، سکون اور رحم کو فروغ دے اور معاشرے کی صحت میں معاون ہو۔ اس لیے شادی کی ایک اہم شرط میاں بیوی دونوں کی آزاد اور باخبر رضا مندی ہے۔ اس میں مزید لکھا گیا ہے کہ قرآن نے شادی کی کوئی خاص عمر نہیں بتائی۔ کچھ دانشور مسلم خواتین نے سپریم کورٹ کو لکھے گئے کھلے خط میں شادی کی عمر 21 سال کیے جانے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ہم شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پی سی ایم اے، 2006 میں ترمیم سے واضح ہو کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ورنہ مسلم لڑکی اس قانون یا اس میں ترمیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کھڑی نہیں ہو پائے گی۔‘‘ خط میں ایک سروے کا بھی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button