دہلی

عدالت عظمیٰ نے بھی تسلیم کرہی لیا، نوٹ بندی کافیصلہ ’درست‘ تھا

نئی دہلی ، 2 جنوری (ہندوستان اردو ٹائمز) سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب اس فیصلہ کو واپس نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے مقاصد کی حصولیابی پر بحث کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ علیحدہ موضوع ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ نوٹ بندی کے فیصلے کو صرف اس لئے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ یہ مرکز کی جانب سے لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکز کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے مشورے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس نے آر بی آئی سے مشاورت کے بعد ہی یہ قدم اٹھایا تھا۔مرکز اور آر بی آئی میں چھ ماہ تک اس سلسلہ میں گفت و شنید ہوتی رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ بات اس معاملہ سے تعلق نہیں رکھتی کہ نوٹ بندی کا مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔

پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے حکم کو پڑھتے ہوئے جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ معاشی پالیسی کے معاملات میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔خیال رہے کہ مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کیفیصلہ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیاتھا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 7 دسمبر2022 کو مرکز اور ریزروبینک آف انڈیا(آربی آئی) کو ہدایت دی تھی کہ وہ حکومت کے 2016کے فیصلہ کا متعلقہ ریکارڈ پیش کریں۔اور سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھاتھا۔ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر کہا کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ختم کرنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ اقتصادی فیصلے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔آئینی بنچ نے یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا ہے۔پانچ ججوں کی آئینی بنچ میں جسٹس ایس عبدالنذیر، بی آر گوائی، جسٹس اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور جسٹس بی وی ناگارتنا شامل تھے۔ ان میں سے جسٹس بی وی ناگارتنا نے دیگر چار ججوں کی رائے سے الگ فیصلہ لکھا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔ اسے گزٹ نوٹیفکیشن کے بجائے قانون سازی کے ذریعے لیا جانا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کے پرانے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا کہ نوٹ بندی سے پہلے حکومت اور آر بی آئی کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوٹ بندی حکومت کا من مانی فیصلہ نہیں تھا۔ آئینی بنچ نے حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا، لیکن جسٹس بی وی ناگارتنا نے نوٹ بندی کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کی آدھی رات سے ملک کے نام پر 500 اور 1000 روپے کے پرانے نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یعنی یہ پرانے نوٹ وزیر اعظم کے اعلان کے 4 گھنٹے بعد ہی چلن سے باہر ہو گئے تھے۔حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں کل 58 درخواستیں دائر کی گئیں۔ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے آر بی آئی ایکٹ 1934 کے سیکشن 26(2) کا استعمال کرنے میں غلطی کی ہے۔

سپریم کورٹ نے سب کو ایک ساتھ سننے کا حکم دے دیا۔درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 26(2) حکومت کو کسی خاص فرق کے کرنسی نوٹوں کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا اختیار نہیں دیتی ہے۔ یہ مرکز کو ایک خاص سیریز کے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے نہ کہ پورے کرنسی نوٹوں کو۔کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیر خزانہ اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے دلیل دی تھی کہ مرکزی حکومت ایسا فیصلہ خود نہیں لے سکتی اور یہ آر بی آئی کے سنٹرل بورڈ کی سفارشات پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ریزرو بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سفارش پر ہی لیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا تھا کہ نوٹ بندی حکومت کا یہ قدم اقتصادی پالیسی کا ایک حصہ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آر بی آئی اور مرکزی حکومت ایک دوسرے کی مشاورت سے کام کرتے ہیں۔ یہاں آر بی آئی نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ سنٹرل بورڈ کی میٹنگ کے دوران آر بی آئی جنرل ریگولیشنز، 1949 کے کورم سے متعلق شرائط کی پیروی کی گئی تھی۔ میٹنگ میں آر بی آئی کے گورنر کے ساتھ ساتھ دو ڈپٹی گورنرز اور آر بی آئی ایکٹ کے تحت نامزد پانچ ڈائریکٹرز نے شرکت کی۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button