
نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ دہلی کی ایک عدالت کی طرف سے یہ ٖفیصلہ جاری ہونے سے پہلے ہی طلباء کے تقریبا تین قیمتی سال ضائع ہوگئے تھے کہ پولیس نے انہیں "قربانی کا بکرا”بنایاتھا اورملزمان کے تشدد کا حصہ ہونے یا ان کے پاس کوئی ہتھیار رکھنے یا پتھر پھینکنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
دسمبر 2019میں سی اے اے۔ این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کے گرفتار کئے جانے کے معاملے میں دہلی ساکیت کورٹ کے فیصلے کے بعد ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان کہا ہے کہ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان طلباء کی گرفتاری اور بعد ازاں جیل جانے کے نتیجے میں ان کو جو ذہنی، مالی اور جسمانی اذیتیں پہنچی ہیں اور انہیں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے، اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے مطالبہ کیا کہ دہلی پولیس طلباء کو ان کے نقصان کی تلافی کرے۔ ہمیں خوشی ہے کہ طلباء کو بری کردیا گیا ہے اور ہم عدالت کے واضح فیصلے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
تاہم، سوال ان نقصانات کے بارے میں باقی ہے جن میں تعلیمی اور مالی مواقع کھونا بھی شامل ہے جو کہ پولیس کی طرف سے درج کئے گئے مقدمات کی وجہ سے ملزم طلباء کارکنوں کو پہنچا ہے۔ ایس ڈی پی آئی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء کی تعریف کرتا ہے کہ انہوں نے اختلاف رائے کے اپنی جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے آواز اٹھائی جسے معزز جج نے بجا طور پر آزادی اظہار اور اظہار رائے کے حق کی توسیع قرار دیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے مزید کہا ہے کہ جامعہ کے طلبا ء نے ایک مثال قائم کی ہے کہ جمہوریت کے شہریوں کو اپنے جائز مطالبات کیلئے کس طرح کھڑا ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی پر عدالت نے پولیس کی سرزنش کی ہے، ہم اس کیلئے عدالت کی تعریف کرتے