بین الاقوامی

صدر رجب طیب اردوغان ترکی کا نام کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟

لندن، 18مارچ (ہندوستان اردو ٹائمز) گوگل پر ’ٹرکی‘ لکھا جائے تو سرخ پرچم کے ساتھ اس پرندے کی تصویر بھی سامنے آتی ہے، جسے امریکہ میں ’تھینکس گیونگ ڈے‘ اور کرسمس کے تہوار پر بڑے اہتمام کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔یک بڑے پرندے کے نام کے طور پر اس کا یہ مفہوم لغت میں بھی ملتا ہے۔ کیمرج ڈکشنری میں اس لفظ کا ایک اور معنی ’احمق یا بے وقوف‘ شخص بھی درج ہے۔ترکی کے خبر رساں ادارے ’ٹی آر ٹی‘ نیوز کے مطابق عام طور پر ترک قوم کے لوگ اپنے ملک کے لیے ’ترکی‘ کے لفظ کو اس لیے پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کے مطابق اس لفظ سے بعض مضحکہ خیز اور تحقیر آمیز تصورات بھی جڑے ہیں جب کہ مقامی زبان میں یہ لفظ ’ترکیے‘ہے۔گزشتہ برس ترک صدر ایردوان نے بھی یہ صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا کہ تمام رسمی مراسلت اور کاروباری برانڈنگ وغیرہ میں Turkey یا Turkie اور Turquie کے بجائے ترکیے (Turkiye) کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔

ترکی اقوامِ متحدہ میں اپنا نام انگریزی میں بھی ’ترکیے‘ رجسٹرڈ کرانے کے لیے تیاری مکمل کرچکا ہے۔معروف امریکی مصنف اور تاریخ دان برنرڈ لوئس اپنی کتاب ’ایمرجنس آف ماڈرن ترکی‘ میں لکھتے ہیں کہ جب کہا جائے کہ ’ترک وہ ہوتا ہے جو ترکی بولتا ہے اور ترکی میں رہتا ہے‘ تو یہ تعریف پہلی نظر میں اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ کیوں کہ ترکی میں رہنے والوں نے اپنی سماجی، سیاسی تاریخ اور ماضی سے کٹنے کے بعد شناخت اختیار کی ہے۔تاریخ کے مطابق مغربی ایشیا میں اناطولیہ کے خطے کو گیارہویں صدی میں ترک قبائل نے فتح کیا تو اسے ’ٹرکی‘ کہا جانے لگا تھا لیکن یہ نام اسے یورپیوں نے دیا تھا۔مؤرخین کے مطابق سلطنت عثمانیہ کا انتظامی ڈھانچا اور معیشت سترھویں صدی میں بتدریج کمزور ہونا شروع ہو گئے تھے اور اس کے بعد یہی دو مسائل آنے والے حکمرانوں کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔سلطنت عثمانیہ نے 30 اکتوبر 1918 کو پہلی عالمی جنگ سے دستبرداری کے لیے برطانیہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔

 

جس کے بعد اس سلطنت کے زوال کا سفر اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا اور بالآخر 29 اکتوبر 1923 کو ترکی کے اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور اس نے ترکی کا نام اختیار کیا جسے انگریزی میں ’ٹرکی‘ لکھا اور بولا جاتا ہے اور ترکی زبان میں اسے ’ترکیے‘ کہا جاتا تھا جو کہ اس کے یورپی نام ہی سے اخذ کیا گیا تھا۔قسطنطنیہ کی عثمانی اشرافیہ میں کسی کو اگر ترک کہہ دیا جاتا تو وہ اسے اپنی تذلیل تصور کرتا تھا۔لوئس کے مطابق عثمانی بھی بنیادی طور اموی اور عباسی کی طرح ایک خاندانی شناخت تھی۔ انیسویں صدی کے ا?غاز تک ترکوں لیے اپنی شناخت کا پہلا حوالہ مسلم ہونا تھا۔ ترک قوم پرستی کے تصور کی مقبولیت ساتھ ساتھ اس میں مذہب کا عنصر برقرار تو رہا لیکن قومی شناخت کو اولیت حاصل ہوگئی۔قوم پرستی کی تحریک مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ترکوں کے لیے شناخت مذہبی کے بجائے قومی روایت سے جڑ گئی اور اس کا جھکاؤ یورپ کی طرف ہو گیا۔

صدر ایردوان کے حکم نامے میں ترکی کو بدل کر ترکیے کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ لفظ ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن مبصرین اسے ملک کی ری برینڈنگ کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک فورن پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر سلیم کورو کا کہنا ہے کہ ایردوان اور ترک قومی پرندے ’ٹرکی‘ کے ساتھ اپنے ملک کے نام کی مماثلت کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ایردوان کی حکومت قومی شناخت کے بیانیے سے متعلق حساس ہے اس میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ اپنے ملک کے لیے کسی مضحکہ خیز یا پرندے کے تصور سے جڑے نام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔صدر ایردوان حکومت کے حامی تصور ہونے والے اخبار ’ڈیلی صباح‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یہ فیصلہ صدر ایردوان کے جدید قومی ریاست کے تصور کی ری برینڈنگ کی کوشش ہے۔ اس میں ملکی مصنوعات کی شناخت ممتاز کرنا بھی شامل ہے۔ صدر ایردوان کا حکم نامہ جاری ہونے کے بعد عالمی سطح پر ملک کے نام کا املا بدلنے کے لیے اقوام متحدہ کا ایک نوٹی فکیشن کافی ہوگا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ترکی اس سلسلے میں تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ سے منظوری کے بعد اگر ترکی کا نام ’ترکیے‘ ہوجاتا ہے تو یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہو گی۔تاریخ اور ماضی قریب میں کئی ممالک اور ریاستیں سیاسی و تاریخی اسباب سے اپنے نام میں تبدیلی کرتے آئے ہیں۔ مثلاً 1935 میں ایران نے اپنا نام ’پرشیا‘ سے بدل کر ایران کردیا تھا۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button