تعلیم

شیخ محمد ابراہیم ذوق کی حیات و خدمات اور قصیدہ نگاری

اگر آپ ویڈیو دیکھنا چاہتے ہیں تو کلک کریں

لنک : ویڈیو

 

نام: شیخ محمد ابراہیم ۔ تخلص: ذوق ۔
والد کانام : شیخ محمد رمضان خطاب : خاقانی ہند
پیدائش: 22 اگست 1790ء
وفات: 16 نومبر 1854ء
65 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کیا اور دہلی میں تدفین کی گئی
ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
شیخ ابراہیم ذوق کی آخری آرام گاہ، پہاڑ گنج، شمالی دہلی،
ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔
ذوق کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ زیادہ تر قصیدہ ہی ملتے ہیںجو بادشاہوں کی مدح میں ملتےہیں۔سودا کے بعد ذوق اردو زبان میںسب سے بڑے قصیدہ نگار ہیں،انہوں نےاپنی قصیدہ گوئی کے لیئے فارسی شعراء کے شاہکار قصائد کو اپنا معیار بنانے کے بجائے سودا کی ہی پیروی کی لیکن اس سے ذوق کی ادبی شان میں کو ئی کمی نہیں آئی ۔
ذوق نے کئی قصائد لکھے لیکن کہا جاتا ہے کہ 1857کے ہنگامے میں آگ ذوق کے گھر میں کچھ اس طرح لگی کہ جو کچھ تھا سب جل گیا ۔جو قصائد بچ گئے محققین نے ان کی تعداد 25بتائی ہےبعض جگہ یہ تعداد 27بھی ملتی ہے، ذوق کی قادرالکلامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے شاہ اکبر ثانی کی شان میںایک قصیدہ لکھاجس کے کل 18 اشعار مختلف 18زبانوں میں تھےاسی کے عوض شاہ اکبر ثانی نے انہیں خاقانی ہند کا خطاب عطاء کیا تھا۔
(تشبیب)
ذوق کے قصائد کا سب سے دلکش حصہ ان کی تشبیوں کا ہے جن سے ذوق کے کمال فن اور علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تشبب میں ان کے موضوعات مختلف اور متنوع ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے جشن صحت کے موقع پر کہے گئے قصیدے میں تشبیب کے ستائیس (27 ) اشعار ہیں ۔ ہوائے بہار کی مسیحا نفسی کی مختلف انداز سے توضیح و تعبیر کی ہے۔ عیدین کی تقریبات پر کہے ہوئےقصائد کی تشبیبیں عیش و نشاط سے معمور ہیں ۔ بعض تشبیبوں میں اخلاقی، حکیمانہ و ناصحانہ مضامین ہیں تو بعض میں زمانے کی نا اہلی کا شکوہ ہے۔

(گریز)
قصیدہ کا یہ مقام خون جگر کا تقاضا کرتا ہے۔ سودا کی طرح نہ سہی پھر بھی ذوق گریز کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے قصائد کے اس مقام پر اس قدر بات کا پہلو بدلتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوبخود بات سے بات پیدا ہو گئی ہے اور ممدوح کا ذکر چھڑ گیا ہے۔ ایک قصیدے میں بطور تشبیب اپنی روش طبیعت اور خاطر نازک کا ذکر کرتے ہیں اور پھر فطری انداز میں زمانے کی مہربانیوں کو بیان کرتے ہیں تو یہیں سے مدد کے لئے فضا ہموار ہو جاتی ہے۔
لے آیا آج مقدر اس آستاں پہ مجھے
کہ سجدہ کرتے ہیں جھک جھک کے جس پہ لیل و نہار
(مدح)
ذوق ایک درباری شاعر تھے اس لئے ان کے ممدوح کا دائرہ بھی محدود ہے۔انہوں نے ایک قصیدہ مرزا مغل کی مدح میں کہا اور باقی سب کے سب اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھے ہیں۔ اس بات پر سنبل نگار نے حیرت جتائی ہے کہ” مذہب سے گہرا شغف ہونے کے باوجود بھی ذوق نے بزرگان دین کی شان میں کوئی قصیدہ نہیں کہا” اصل میں ذوق کے ممدوحین اپنا جاہ و جلال کھو چکے تھے اس لئے مدح گوئی میں مبالغہ آرائی کا سہارا لے کر سودا سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ذوق ممدوح کی خدا ترسی، عدل و انصاف، عقل و حکمت، شان و شوکت اور شجاعت کی تعریف پرزور انداز میں کرتے ہیں۔
آگے جلوے کے ترے پرتو خورشید ہے گرد
آگے رتبے کے ترے خاک ہے بزم کیواں

مدعا و دعا
ذوق کے قصائد کا خاتمہ حسن طلب پر نہیں بلکہ دعا پر ہوتا ہے۔ وہ ایک قناعت پسند انسان تھے اس لئے انہوں نے کبھی بھی اپنے قصائد میں ممدوح کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا۔ اس سے ان کے قصیدوں میں اور بھی نکھار پیدا ہوگیا ہے۔ ایک قصیدے کا خاتمہ اس دعا پر کرتے ہیں:
ختم کرتا ہے سخن ذوق دعا پر اس طرح
تا ہو دریا میں گہر، کان میں پیدا الماس
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ذوق کے قصائد میں جہاں علمیت پسندی، تخیل پرستی، مضمون آفرینی، مبالغہ آرائی، علوم و فنون، تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع کی بھرمار ہے وہیں ان کے قصائد پرکاری و فنکاری، اثریت و شعریت اور سادگی و صفائی سے بھی محروم نہیں ہیں۔ذوق قصیدہ نگاری میں سودا کے مد مقابل نہ سہی لیکن سودا کے بعد وہ اردو قصیدے کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔یہاں فراق گورکھپوری کی اس رائے سے ہمیں اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ "سودا اگر آسمان قصیدہ کے نصف النہار ہیں تو ذوق اسی آسمان کے ماہ کامل ہیں”
قصیدہ : زہے نشاط اگر کیجئے اسے تحریر۔ یوجی سی نیٹ کا سلیبس ہے
یہ شیخ محمد ابراہیم ذوق کا مشہور مدحیہ قصیدہ ہے۔جسے ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی مدح میں کہا تھاجب بہادرشاہ ظفر بیماری سے شفایاب ہوئے تھے۔
ہیں میری آنکھ میں اشکوں کے تماشاگوہر: یوجی سی نیٹ کا سلیبس ہے

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button