مضامین

سیمانچل پر فرقہ پرست طاقتوں کی نظر : مفتی جنید احمد قاسمی

مولانا و مفتی جنید احمد قاسمی صاحب
junaidqasmi705@gmail.com

ہمیشہ سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیمانچل کے لوگ ہمیشہ سے ہم آہنگی اور یکجہتی کے ساتھ زندگی گزارتے آ رہے ہیں ۔ اور وہ اس پر یقین رکھتے ہیں ۔ سیمانچل ایسا علاقہ ہے جس کے بارے میں اگر کہا جائے کہ بعض خصوصیات میں پورے ملک سے مختلف ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔ بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں کے مسلمانوں کے رہنے اور آبادی قائم کرنے کا بہتر نظام اور انداز دیکھا تو متحیر رہ گئے اور آپ نے فرمایا کہ کشمیر اور ملک کی بعض دوسری خاص جگہوں کے علاوہ پورے ملک میں رہنے کا اتنا اچھا غیر مخلوط نظام شاید کہیں ہو۔ اس کے باوجود سیمانچل میں ہندو مسلم ساتھ مل کر رہتے ہیں ایک پلیٹ میں کھاتے ہیں ایک ساتھ کام کرتے ہیں ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔
سیمانچل ایسا علاقہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی کہیں آبادی ہے تو پورا پورا گاؤں مسلمانوں کا ہے اور پھر کچھ فاصلے پر غیر مسلموں کی آبادی ہے تو پورا گاؤں غیر مسلموں کا ہے ۔مخلوط آبادی سیمانچل میں خاص طور سے دیہاتوں میں کم ہے ۔ اکثر و بیشتر غیر مخلوط آبادی ہے ۔ البتہ دیہاتوں سے شہروں میں جب ہندو مسلم آتے ہیں تب مخلوط آبادی تشکیل پاتی ہے؛ لیکن تب بھی پورے اتحاد کے ساتھ رہتے ہیں ۔ کام کرتے ہیں۔ نہیں لگتا کہ کون ہندو ہے کون مسلم ہے ۔ عام طور پر ایک ہندو مسلمانوں کو اتنی ہی عزت دیتا ہے جتنی مسلمان ایک ہندو کو دیتا ہے ۔ وہاں کوئی فرق نہیں دیکھنے میں آتا ۔ یہ ہندو ہے یہ مسلمان ہے۔ سماجی طور پر ایسا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے ۔
ایک دوسرے سے مسکرا کر اور دل میں اتر کر بات کرنا ۔ سادگی کے ساتھ زندگی گزارنا یہاں کی طبیعت میں شامل ہے ۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے اندر جو یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے اسے ختم کرکے کیسے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرے؛ لیکن یہاں کے لوگ امید ہے کہ بی جے پی کے بہکاوے میں مزید نہیں آئیں گے ۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید محمد منت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس علاقے کو بنانے اور سنوارنے میں بڑی محنتیں اور کوششیں رہی ہیں ۔ ان بزرگوں کی خدمات کو وہاں کے مسلمان کبھی بھلا نہیں سکتے ۔
وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے آج پورنیہ میں سبھا کیا ۔ سبھا میں کہی گئی اکثر و بیشتر باتیں بے تکی تھیں ۔بعض باتیں قابل گرفت اور لوگوں میں زہر گھولنے والی تھیں ۔ بہار سرکار کو اس پر توجہ دینی چاہئے ۔
ضلع ارریہ کا ایم پی بی جے پی سے ہے ۔ صرف زبانی دعوے کرتا ہے کام وام کچھ نہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے اختلاف وانتشار کی وجہ سے ایم پی بنا ۔ اب وہاں کے ہندو مسلم کو مل کر اس طاقت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اس طاقت کے خلاف منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
لوگ جانتے ہیں کہ ضلع کا ایم پی صرف ہندو مسلم کے درمیان منافرت اور اختلاف کو ہوا دیتا ہے ۔ سبھا میں خاص طور سے 370کا بڑے پرزور انداز میں تذکرہ کیا گیا ۔ اسی طرح سبھا اور میڈیا کے ذریعہ سیمانچل میں روہنگیائی اور بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کا تذکرہ کیا گیا ۔
یہ پہلو سب سے اہم ہے ۔ آپ کو بتا دوں کہ کئی دہائی پہلے جب بنگلہ دیشی شہریت کے نام پر بہار، یوپی، دہلی اور بمبئی سے لوگوں کو ملک بدر کیا جانے لگا اور 48 ہزار لوگوں کی لسٹ تیار کی گئی؛ تاکہ انہیں دیش سے نکال دیا جائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں تو حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک منظم کی اور بڑی جرأت اور دور اندیشی سے کام لے کر اضلاع میں کام کو پھیلایا اور ارریہ شہر میں عظیم الشان کانفرنس کی جس کی وجہ سے 48 ہزار لوگوں کی جعلی سرکاری فہرست بھی دھری کی دھری رہ گئی۔
سیمانچل آج سے نہیں، عرصہ سے سنگھ کے نشانے پر ہے ۔ اس لئے آج جو علماء کرام وہاں رہتے ہیں ان کو پوری توجہ کے ساتھ اس پہلو پر نظر رکھنی چاہیے؛ تاکہ یہ طاقت اور خاص طور سے اس کا ایجنڈا جو بالخصوص سنگھ اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے، جو ساورکر اور پنڈت دین دیال کا ایجنڈا ہے پھیلنے سے رک سکے۔
میں جب خیرآباد، مئو، یوپی میں زیر تعلیم تھا تو وہاں میں نے دیکھا تھا اپنی آنکھوں سے کہ محمدآباد گوہنہ میں بڑی تعداد میں آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہیں ؛ لیکن وہاں کے ہندو اور مسلمانوں نے توجہ نہیں دی آج کی وہاں جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے اس لئے بہار میں کسی طرح سے بھی اس طاقت کو جمنے اور پیر پسارنے نہ دیا جائے، ورنہ جو حالت ابھی یوپی کی ہے وہی حالت بہار والوں کی ہو گی۔
اس لئے جمیعت علماء نے جو سدبھاؤنا منچ قائم کرنے کی صدا لگائی ہے اور اس کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اس کام کو تیز سے تیز تر کیا جائے اور ہر گاؤں ہر شہر، اور ہر قصبے میں یہ منچ قائم کیا جائے ۔ خاص طور سے جو مسلم و غیر مسلم غریب طبقے سے آتے ہیں ان کو بھی اس منچ میں مدعو کیا جائے۔ ساتھ ہی دین کی باتیں بھی مناسب جملوں میں بتائی جائے ۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف نیتا ؤں کو جوڑ کر بات کی جائے؛ بلکہ سب کو دعوت دی جائے ۔
اس طرح سے ان شاء اللہ تعالیٰ اس طاقت کو وہاں پیر پسارنےاور آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ہمیں مل جل کر علاقے کو اس طاقت سے بچانا ہوگا ؛ تاکہ ہمارا صوبہ مضبوط ہو اور صوبہ بہار ہی نہیں ؛ بلکہ پورے ہندوستان کو اس منصوبے پر عمل کرنا چاہیے حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نہیں رہے؛ لیکن اب الحمدللہ سیمانچل میں بڑی تعداد علماء کرام کی پیدا ہو چکی ہے انھیں ان باتوں میں دلچسپی لینی چاہیے اور وہاں فرقہ پرست طاقتوں کو پھیلنے سے روکنا چاہیے اور خاص طور سے سنگھی آئیڈیولوجی کو وہاں پھیلنے سے روکنا چاہیے ۔ امن و آشتی کی دعوت دینی چاہیے ۔
وباللہ التوفيق

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button