سپریم کورٹ کے تبصرے کا خیر مقدم ہے : فتح محمد ندوی

ہم ہندوستان کی سب سے بڑی انصاف کی عدالت سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اس نے بروقت گستاخ رسول نو پور شرما کو اودے پور سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے۔ اس سے سر عام معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کاش نوپور شرما جیسی فتنہ پرور خاتون پر پہلے ہی اس طرح کا سخت ایکشن لے لیا ہوتا تو ملک میں بدامنی کی یہ فضا قائم نہ ہوتی۔ ویسےانصاف کے معاملے میں اقلیتوں کے ساتھ ہمیشہ دوہرا معیار رکھا جاتا ہے۔جس سے ملکی اقلیت سے تعلق رکھنے والے نوجوان مسلسل اشتعال انگیزی کی طرف بڑھ رہے۔ بلکہ اب صورت حال یہ ہوگئی کہ نوجوان اپنے آپ کو قانون سے بالاتر دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی غلط کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ اس وقت نوجوانوں میں شدت کے ساتھ یہ محسوس ہو رہا کہ وہ کسی ملی قیادت کو ماننے یا خاطر میں لا نے کو تیار نہیں ہیں۔اعتبار اور تسلیم کرنا تو کجا۔
یہ صورت حال ہم سب امن پسند شہر یوں کے لیے تشویش اور خطرہ کا باعث ہوگی۔ اس لیے ہر مسئلے کو سیاسی دکان سجانے کے بجائے ملک کے مفاد میں دیکھنے کی اور سمجھنے کی کو شش کریں۔ ہماری سیاست کا کمزور پہلو یہی ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کے سابق الیکشن کمشنر لنگدو نے کہا تھا کہ یہاں کے سیاست دان سماج کے لیے ناسور ہیں۔ حقیقت پر مبنی ان کا یہ اقتباس ہمیں وقتاً فوقتاً آئینہ دکھا تا رہتا ہے۔
مجھے سپریم کورٹ کے اس تبصرہ پر بڑی خوشی ہوئی۔ ایک سچی حقیقت کی طرف سپریم کورٹ نے اپنا رجحان پیش کرتے ہوئے نوپور شرما سے عام معافی کا مطالبہ کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کا یہ اشارہ اور رجحان کہ نوپور کی غلط بیانی کے سبب اودے پور کا حادثہ پیش آیا ہے سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے۔ کاش سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے اس کی معافی کے بجائے اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کراتا۔ کیونکہ اس وقت سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلہ سے عوام کا ٹوٹا ہوا اعتماد یقینا بحال ہوتا۔کاش اس پر غور کیا جائے۔