مضامین

سایہ رحمت کی آغوش میں : الطاف جمیل شاہ

چشم تصور سے میں آج اس بوڑھے چنار کے سائے میں بیٹھ کر نہ جانے کب تاریخ کے ان پنوں میں کھو گیا جنہیں تلاش کرنا جن سے نسبت ہی میرے وجود کو تسکین کا سامان میسر کرتی ہے اک قافلہ چلا جارہا ہے بارعب شخصیت وضع قطع کے لحاظ سے سادہ پر نور ایمانی سے منور بشاشت لئے خوبصورت آنکھیں جھکائے سالار قافلہ کے ساتھ ننگے پاؤں جرآت و شجاعت جن کی چال ڈھال سے چھلک رہی ہے اسی قافلے کےبکل پہلی صف میں سالار قافلہ کے بلکل نزدیک دراز قامت اور اک پر جلال شخصیت کی گرجدار آواز آتی ہے
او دشمن خدا ہاتھ پیچھے کر نہیں تو تیرا بازو نہ رہے گا
دوسری سمت سے آرہے چند مسافروں میں سے جب ایک مسافر نے اپنا ہاتھ سالار قافلہ کے ریش مبارک کی اور بڑھایا
جوں ہی اس کی سماعت سے یہ آواز ٹکرائی اس کے ہوش اڑ گئے یہ تو اسی کے شہر کا اک خوب رو نوجوان جرآت و شجاعت کی مثال دے جانے والا اک کڑیل جوان عمرؓ تھا ہائے زد و پشیمانی یہ کیا یہاں تو اف کرنے کی بھی جسارت کرنا ممکن نہیں مسافر اپنے ہم نواؤں میں واپس آئے اور کہا وہاں کا ماجرا ہی عجیب ہے وہ تو سالار اعظم کا تھوک بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے زمانے نے کروٹ بدلی چند سال بعد ہی یہ مسافران راہ حق و صداقت پورے عرب پر چھا گئے اب سالار اعظم ﷺ کا انتقال ہوچکا تھا پر یمن کی اور اک باطل کا پرستار بدی کی آماجگاہ بنتا جارہا تھا حالات سخت تھے پر اس کذاب و مفتن کی سرکوبی لازمی تھی صدیق رضی اللہ نے امت کے جیالوں کا اک لشکر اس کذاب کی سر کوبی کو روانہ کیا گر چہ اس کی تشکیل سالار اعظم ﷺ نے ہی کی تھی پر روانگی کا ابھی پروانہ نہ ملا تھا کہ سالار اعظم ﷺ اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اب ملکی سیاست یہ کہہ رہی تھی کہ دشمنان دین اس غم و الم کی گھڑی میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں حملہ آور ہوسکتے ہیں اور اس پاکیزہ و منزہ ریاست کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں اس لئے روانگی کی تیاری میں لشکر کو روکا جائے پر حب نبوی ﷺ سے سرشار امیر المومنین نے بلکل نہ روکا فرمایا میرے قائد نے جسے تشکیل دیا ہے میں اسے روک نہیں سکتا
ہائے صدقے جاؤں ان آنسوؤں کے جو اس حبشی غلام کی مقدس نگاہوں سے بہہ رہے تھے ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے اس کے قربان جاؤں جس کے کمر کی چمڑی کے ساتھ ساتھ گوشت بھی پگھل جاتا ہے اپنے ایمان کی حالت میں وہ کیسا منظر تھا کہ اک شخص باندھ دیا گیا ہے اسے کہا جاتا ہے بتاؤ تیرے رہبر کو ہی شہید کیا جائے تو کہتا ہے مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے قدموں میں کانٹا چھب جائے میری جان کے بدلے
ہائے ہائے
آئے امت مسلمہ کے پاکبازو عشق و محبت کے نام پر اپنی دنیا کو دوام بخشنے والو گھروں کی تزئین و آرائش اس مقدس نام سے کرنے والو آئے جبہ و دستار والو ترنم اور للکار کر تقریریں فرمانے والو آئے وہ جو اپنے جسم کا بار نہ اٹھانے کے سبب زمین پر آہستہ چلتے ہوئے خود کو ولی و درویش کہلانے والو سنو تاریخ کے ان پنوں سے یہ چند یادیں نظر آپ کی کیں کہ شاید آپ کا دل تڑپ کر حلق تک چلا آیا کہ وہ جان و مال نچھاور کرکے زندگی کی خوشیاں مسرتیں قربان کرکے دامن نبوی ﷺ کی آغوش میں چلے آتے ہیں اور ہم ہیں کہ دور ہی دور چلے جارہے ہیں
سنو آئے امت کے پاکیزہ نفوس و نظریات والو
تم کیسے محبوب ہو تمہیں کیسا تعلق ہے کہ تمہارے حبیب ﷺ پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں تمہارے محبوب کی عزت و تکریم پر جملے بازی کی جاتی ہے ہائے تمہیں نیند کیسے آتی ہے تمہیں آرام کیسے آتا ہے یاد ہے نا
تم ہی تو کہتے ہو وہ امت کے لئے روز محشر روئیں گئے کہ میری امت کی مغفرت ہو وہ کتنی راتوں کو دنیا میں روئے کہ الہی میری امت پر رحم فرما تہجد کی ہچکیاں اب بھی احادیث کے ذخائر میں موجود ہیں ان ہچکیوں ان سسکیوں کے صدقے ہم ہیں آپ ہیں وہ بدر و احد کی آہیں وہ مقدس آنسو جنہوں کے بوسہ لیا دنیا کے اس رخسار کا جس پر فرشتے بھی نازاں ہوتے تھے وہ غار کی صدائیں وہ سجدوں کہ دعائیں اسی امت کی بقاء و سلامتی کے لئے تو تھیں
آئے ملت مسلمہ کے پاک باز قائدین کیا تمہاری سسکیاں آہیں ہچکیاں بلند ہوئیں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے لئے کیا آپ کے لب ہلے کیا دل سے اک آہ بلند ہوئی کیا چند آنسوؤں کے قطرے گرے کیا کھانے سے جی متلایا کیا غم کے آثار چہرے پر ظاہر ہوئے کیا ہنسی و مسکان چہرے سے غائب ہوئی کیا آرام سے جسم تھرایا نہیں نا تو کیسے لوگ ہو او مسلمانو تم کیسے جی رہے ہو کہ تمہارے جسم و جان سے عظیم تر پر رقیق قسم کے فقرے اور تہمتیں لگائی جارہی ہیں ہائے افسوس

آہ جن کا تو چاند تھا افسوس وہ ستارے نہ رہے

بوڑھے چنار کے چند پتے نمی لئے میرے سامنے گر گئے چند لوگ آئے اور ان بکھرے پتوں کو قدموں تلے روندتے ہوئے اس چنار کی طاقت اس کی قوت کو جیسے للکار کر نکلے کہ سنو تیری اوقات ہی کیا جو اپنوں کو نہ سنبھال سکا میں سوچ رہا تھا کاش یہ خوبصورت پتے اپنے اس بوڑھے ہی سہی پر طاقت کے سرچشمے سے خود کو جدا نہ کرتے تو یوں قدموں کی زد پر نہ آجاتے پر ان کے گرنے کے لمحے قابل دید تھے یہ خوب نخرے کر کر کے گرے جیسے ناچ رہے ہوں اپنے نصیب پر کہ اب ہم اپنی نئی دنیا کو پائیں گئے پر انہیں کیا خبر کہ ان کا نصیب تباہی ہے ذلت و بربادی ہے یہی ہوا پر ان پتوں کی داستان دیکھتے ہوئے میں اسی سوچ و فکر کے ساتھ اپنوں کے قہقہے اپنوں کی آپسی رسہ کشی اپنوں کے درمیان دست و گریبانی آپسی رنجشیں بڑھتی دوریاں پر کیا ہے یہ سب مجھے یقین آیا کہ واللہ یہی تو بربادی کا اصل محرک ہے کہ ہم جدا جدا ہوگئے ہماری راہیں جدا جدا ہوئیں وہاں تو حبشی عربی عجمی کسی کو کسی پر فضیلت نہیں یہاں تو اپنی فضیلت کے ثبات کی باپت عزت و وقار کی بولی لگائی جاتی ہے عفت و عصمت تک کو تار تار کیا جاتا ہے تو میں نے اک سرد آہ کے ساتھ یوں کہا
آہ میرے قائد اعظم رہبر انقلاب رہبر و رہنما ﷺ آہ تیرے چاہنے والے نہ رہے ان کا تو کب کا جنازہ نکل چکا ہے اب یہ باتوں اور لفظوں کے بادشاہ باقی رہے ہیں ہماری نگاہیں نمناک تب ہوتی ہیں جب ہماری اپنی بات ہوتی ہے آئے سالار قافلہ آپ تو ہمارے جسم و جاں سے نکل گئے ہیں کہیں ہماری نگاہیں اور قلب میں کرب کی کوئی کسک محسوس نہیں ہورہی ہے شاید کہ نور نگاہ سکون قلب برباد ہوگئے ہیں ہمارے ہم مردہ لاشیں ہیں ایسی لاشیں جو اپنا بوجھ ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں مسلسل گر رہی ہیں پر ان کے قدموں میں سکت نہیں کہ تھوڑا سا ہی صحیح اپنی سانس بحال کر لیں یہ ایسی لاشیں ہیں جو خود ہی خود کو نوچ رہی ہیں اپنے ہی فربہ جسم و جان کو روندنے کے لئے منتیں کر رہے ہیں ہائے تعفن زدہ یہ مردہ اجسام کے ساتھ چلتے ہوئے یہ انسانی ہیولے کیا ہیں یہ یہ وہ پتے ہیں جو اپنی اپنی دھن میں بوڑھے چنار سے تعلق توڑ توڑ کر خود کے لئے رسوائیوں کا سبب اس خوشی میں بنتے گئے کہ ہم اک نئی بلندی اک نئی عظمت کو پانے کے لئے ہی تو بکھرنے کو ترس رہے ہیں

تاکہ ان کی اپنی دنیا اپنا قد اپنی پہچھان ہو پر ہائے انہیں کون سمجھائے کہ جب بھی اس بوڑھے چنار کو کاٹا جائے گا تو شاخیں بھی ٹوٹ پھوٹ ہی جائیں گئیں پتے تو ویسے ہی قدموں سے روند دئے جائیں گئے

ذرا سوچئے
لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة الحسنة
بہترین ماڈل بہترین رہنما بہترین قائد تمہارے لئے جن کی ہمیں تلاش رہتی ہے وہ جو ہمارے دلوں کو سرور دے ہماری منزلوں کا تعین کرے ہم ہمیشہ اسی الجھن میں رہتے ہیں رب العزت نے یہ خوبیاں رہنمائی اور رہبری کی مدینہ کے عظیم چراغ مکہ کے ماتھے کے جومر میں رکھی ہیں ہمیں ان کی رہنمائی میں جینے کا سبق دیا گیا ہمارے سلف نے جب تک اس مرد حر اس عزت و افتخار کے پیکر ﷺ کی قدم بوسی کو اختیار کئے رکھا ان کا دنیا کا نام رہا ان کی عظمت انکے جاہ و جلال کی دنیا معترف رہی ان کے سامنے بڑی بڑی بادشاہتیں سر جھکائے رہیں پھر زمانہ گزرتا رہا موجودہ صدی سے پہلے ہی وہ عرب کے یہودی اپنی بقاء کے لئے محو جدوجہد ہوئے امت زمانے کے ساتھ ساتھ بکھرتی رہی وہ یک جا ہوتے گئے میدان حق و باطل کی جنگ کے بجائے فکر و نظر کی جنگ نے لی امت مسلمہ اس فکری اور نظریاتی جنگ میں دفاع کی روش اختیار کرتی گی حماقت پر حماقتیں ہوتی رہیں فکری و نظریاتی پستی کا شکار ہوتی گئیں جسم و جان اسلامی رہے پر قلب و نظر ہار گی دفاع کی جگہ بھی بدلی اب پستی کی اتھاہ گہرائیوں کا شکار ہوئی اور پھر
موجودہ زمانہ آیا
جب زبان پر اک ترنم کے ساتھ یہ صدا گونجی قربان آپ کے یارسول ﷺ
لبیک یا رسول اللہ ﷺ
کی صدائیں بلند ہوتی گیں اور رگ جاں و جسم کے آرام و سکوں کے لئے حب رسول ﷺ سے بھی دستبردار ہوتے جارہے ہیں جس کا شاخسانہ ہے کہ بدزبان و بد اخلاق لوگ زبان درازی کی جرآت کرنے لگئے گر ہم اپنا حال دیکھیں تو سوائے ہاہا کار کے ہم کر بھی کیا سکتے ہیں معافی چاہتا ہوں کیا ہم بحیثیت امت زندہ ہیں سماجی یا معاشرتی سطح پر کیا یہ سچ نہیں کہ اخلاقی اقدار ہم میں نہیں سماجی اور معاشرتی وہ کون سی برائیاں ہیں جو ہمارے ہاں نہیں کیا یہ سچ نہیں کہ مساجد و خانقاہیں مدارس دانش گاہیں ہم نے تقسیم کردی ہم ایک دوسرے کو ہی کافر مرتد زندیق کہنے والے نہیں کیا ہم آپسی عناد رسہ کشی نفرت عناد بغض عداوت کے شکار نہیں کیا ایسے لوگ امت کہلانے کے مستحق ہیں ملت کہتے ہوئے بھی نوک قلم شرمندہ ہورہی ہے کیا آثار و نظریات کے لحاظ سے ہم اسوہ مبارکہ کی پاسداری کر رہے ہیں کیا سنن و فرائض کی ہمارے ہاں نظریاتی برتری پائی جاتی ہے کیا اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہماری زندگیاں بسر ہورہی ہیں کیا نسل نو کی تربیت اسوہ کاملہ کی روشنی میں ہم تشکیل دے رہے ہیں نہیں نا
تو آپ ہی کہیں ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کیسے محبین ہیں میں اک طالب علم ہوں پر سمجھتا ہوں اب تو ہم دین کو دنیا بسانے کے لئے ترقی و شہرت و جاہ و حشمت پانے کے لئے ہی استعمال کر رہے ہیں ورنہ ہمارا کوئی واسطہ زیادہ نہیں رہا ہے اس مقدس اور مبارک نظریہ سے جسے شریعت اسلامی کہا جاتا ہے تو میرے پیارو کون دفاع کرے ناموس رسالت کا ہم تو آپسی عناد و نفرت کی نظر ہوکر اس حد تک آگئے نکل گئے ہیں جہاں سے واپسی گرچہ ناممکن نہیں پر دشوار و کٹھن ضرور ہے پر جدید طلبہ جو اس آپسی عناد حسد و بغض سے ابھی خالی ہے میں ان سے ہاتھ جوڑ کر التماس کرنے کی جسارت کروں گا کہ میرے پیارے چلے آو چند لمحے اس پاکیزہ سایہ میں بسر کریں جس کا سایہ ہماری بقاء و فلاح کا ضامن ہے اور جس سے دوری ذلت و رسوائی کی راہ
میں اٹھ کر چل تب پڑا اس چنار کے سائے سے جب دور مسجد سے حی علی الفلاح کی صدا بلند ہوئی اور میں نے دیکھا چند لوگ اس صدا کی اور جانے کے بجائے حیران و ششدر ہوکر بازار کی اور جارہے تھے اور یوں مسجد اپنوں کی بے وفائی اور مؤذن اپنے دہرائے الفاظ پر پشیماں کہ کیا سے کیا ہوگئے نماز مغرب ادا کی اور نکلتے ہی سنا ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہیں گئے
فی امان اللہ
الطاف جمیل شاہ

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button