رونگٹے کھڑا کرنے والا واقعہ

محمد وسیم غازی
انڈیا کے گجرات میں 28 فروری 2002ء سے شروع ہونے والی خوفناک مسلم نسل کشی کے درمیان پتہ نہیں کتنی بھیانک وارداتیں انجام دی گئیں، جن میں سے ایک کے بارے میں مختصر جانیے اور اندازہ لگائیے کہ کیا کچھ کیا گیا ہوگا!
راندھک پور ضلع داہود، گجرات کی رہنے والی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، 2002ء میں ان کی عمر 19 سال تھی، جب ان کے گاؤں پر ہندوؤں کے ایک جھنڈ نے حملہ کیا، گھروں کو جلانا، لوٹنا اور عورتوں کی عصمت دری کرنا شروع کیا ؛ تو وہ پندرہ سولہ لوگوں کے ساتھ (جس میں سے اکثر اس کے گھر کے لوگ تھے) گاؤں سے نکل گئی، 3 مارچ 2002ء کو چھاپر واڑہ گاؤں میں یہ لوگ پہنچے اور وہیں رہنے لگے،
نفرت کے پجاری ہندوؤں کا ایک گروہ وہاں بھی پہنچ گیا، گھروں کو جلایا اور عزتیں لوٹیں، چارج شیٹ کے مطابق بلقیس بانو اور ان کے ساتھ چار مزید مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی، بلقیس بانو کی ماں کے ساتھ بھی سب کے سامنے اجتماعی عصمت دری کی گئی، ان درندوں نے ان کے ایک تین سالہ معصوم بچہ کو پتھر پر پٹخ کر شہید کردیا اور پیٹ سے حمل کو نکال کر نوزائیدہ کو نیزہ پر اچھالا، بلقیس بانو اس حادثہ کے بعد کئی گھنٹے بیہوش رہیں، جب انہیں ہوش آیا تو ان کے ساتھ موجود تمام مسلمان شہید کیے جاچکے تھے،
انہوں نے آدی واسیوں سے کپڑے لیے اور اپنے تن کو ڈھانکا، اس کے بعد لیم کھیڑا پولیس اسٹیشن پہنچی، وہاں انہوں نے کانسٹیبل سوما بائی گوری کے سامنے پورے حالات بیان کیے، لیکن اس کانسٹیبل نے معاملہ کو دبادیا، زخمی بلقیس بانو کسی طرح گودھرا ریلیف کیمپ پہنچی، وہاں ان کا علاج ہوا، جب کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو انہوں نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن سے مدد کی اپیل کی ؛ تو پورا معاملہ گجرات سے مہاراشٹرا منتقل کردیا گیا اور جانچ شروع ہوئی تو بلقیس بانو کو جان سے مارنے کی دھمکی ملنے لگی، ممبئی میں صرف اس خوفناک اجتماعی عصمت دری اور بےرحمانہ قتل معاملہ میں 19 لوگوں کے خلاف معاملہ درج ہوا، جس میں 6 پولیس اور ایک سرکاری ڈاکٹر بھی شامل تھے،
پھر جنوری 2008ء میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے ان میں سے 11 لوگوں کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی اور 7 لوگوں کو ثبوت نہ ملنے کی آڑ لے کر آزاد کردیا گیا، اس فیصلہ کو ممبئی ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا، پھر ان مجرمین میں سے ایک سپریم کورٹ سے رجوع ہوا اور ضمانت کی درخواست دی، سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا حکم دیا، جس نے کئی بیٹھکیں کیں، پھر 15 اگست 2022ء کو گودھرا جیل میں بند ان خطرناک مجرموں کو گجرات حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت آزاد کردیا گیا، جس کے بعد ہندوؤں کے نفرتی گروہ نے ان مجرمین کا پرتپاک استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔