کالم

راستہ اورمنزل : توقیر بدر آزاد

راقم پروفیسر فیضان مصطفیٰ صاحب کو کئی برسوں سے الگ الگ چینلز پر سننے کے علاوہ جب سے ان کا اپنا چینل بنا ہے،انہیں اکثر و بیشتر سنتا آیا ہے.

اس سے قبل راقم پٹنہ امارت شرعیہ جب تدریس افتا سے وابستہ تھا تو انہیں انکے آرٹیکل میں پڑھا کرتا تھا.آج بھی ناقدانہ نگاہ کے ساتھ انہیں پڑھتا ہے.

رات بھی ان کا تازہ ترین جو ویڈیو مولانا رحمانی صاحب اور کتاب رونمائی والے جلسے میں پیش آیے واقعے اور ملکی قانون کی برتری سے متعلق اپلوڈ ہوا ہے.اسے بھی بغور سنا اور سمجھا.

یقینا وہ قانونی دنیا میں ایک نمایاں نام ہیں،تاہم عقل و reasons کے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا پرکھا جایے،تو ان کا معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے.جتنا سادہ سمجھا جاتا ہے.اور جلد بازی میں رایے قایم کرنے والے انہیں ‘none fallible غلطی نہ کرنے والے’ مان بیٹھتے ہیں.

انکے یہاں ایک چیز صاف صاف محسوس کی جاسکتی ہے جسے منطق کی زبان میں تضاد کہا جاتا ہے.
اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے چینل پر بھلے لاکھ کہیں کہ میں تھیالوجی(عقائد و دین) کا اسٹوڈنٹ نہیں.یہ میرا میدان نہیں.میں قانون کا طالب علم ہوں اور اسی کے متعلق مجھے بیداری لانی ہے.تاہم وہ تھیالوجی پر جم کر اپنی رائے رکھتے ہیں.اور اسے ایسا کرلیا جایے ویسا کرلیا جایے، اس کا مشورہ ضرور دیتے ہیں.
اسے ہی ہم انکا زبانی دعویٰ و عمل و فکر کا تضاد contradiction کہہ سکتے ہیں.

حالیہ ایک جلسے یا تقریب (اس لنک اٹیچ ہے)میں انہیں سننے اور شائع رپورٹ کو پڑھنے والے منصف مزاج انکے تازہ ترین اپلوڈ ویڈیو کو سامنے رکھ کر یہ محسوس کرسکتے ہیں.

چناچہ وہ احادیث کے تناظر میں ‘روایت و شہادت’ کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، نہ وہ یہ جانتے ہیں؛ مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایات کو عورت کی شہادت کے زمرے میں رکھتے ہیں اور پھر عورت و مرد کے درمیان مطلق مساوات والا فلسفہ ذہن میں رکھتے ہوئے انکی روایت تو مرد کی روایت کے مقابل آدھی شہادت ہوگی؟ کہکر سوال ضرور اٹھاتے ہیں.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور زندگی کے سبھی پہلو نیز فتویٰ و قضا میں فرق جانے بغیر وہ "غیر مصدقہ روایت "کا الزام رضاعت کی شہادت یا واقعے پر وہ ایک خاتون صحابیہ یا محدثین پر آرام سے رکھ دیتے ہیں.

‘روایت و درایت’ کے درمیان فرق اور محدثین کے کارنامے کو سامنے رکھے بغیر احادیث کو غیر ناقدانہ مزاج کا حصہ کہتے ہیں.

اسناد پر زور اور اندر مضامین کو یونہی نقل کرنے کا کام ہوا ہے.وہ یہ تایید نما اقرار ضرور کرتے ہیں.جیسے اس میدان کے بڑے ماہر ہیں؟

اس پر طرہ یہ کہ آئین میں درج سبھی قوانین و فلسفہ قانون کا انکے مرتیبن کے حوالے سے ‘انسانی کاوش ‘ ہیں اس کا اقرار کرتے ہیں.
ظاہر ہے پھر وہ فلسفیانہ راہ سے یہ بھی جانتے ہونگے کہ مغربی ماہرین قانون کون تھے؟ کیا تھے؟ اور انکے نظریات تھیسس{ Thesis} اور اینٹی تھیسس {Anti thesis} نیز سنتھیسس {Synthesis} کے مراحل سے گزر آج کہاں ہیں اور کل کہاں ہونگے؟

ان سب کے باوجود بعد بھی وہ مشورہ یہی دیتے ہیں کہ شرعی قوانین کو ان کے تابع ہی رکھا جایے!لنک میں رپورٹ کے اندر یہ پڑھ سکتے ہیں!

جبکہ یہ قوانین انسان کی سہولت کے لیے ہی ہیں،یہی وجہ ہے کہ عوام انہی آئین میں درج سہولت کے پیش نظر احتجاج کرسکتے ہیں اور کرنا چاہئے.اسکا اعتراف کرتے ہوئے وہ مشورہ بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بہت سے فیصلے میں غلطی کی ہے.ہم اسے ہٹانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں. ویڈیو میں جاکر یہ سب سن سکتے ہیں.

پھر بھی اسے دودھ کا دھلا مانکر شریعت میں لچک کی بات عوام کے سامنے جلسے میں کہتے ہیں.واہ!

باتیں اور بھی ہیں!

رہ گئی بات رحمانی صاحب کا عوام سے پوچھنا اور عوام کا حکم الہی پر ہامی بھروانا یہ انداز کسی عوامی جلسے میں نامناسب کہا جاسکتا ہے. بعض ساتھیوں نے اس پر یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں کوئی فتنہ پرور اسے آئین سے غداری کا کیس نہ بنا ڈالے.اللھم احفظنا منہ!

رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ باتیں شرکاء تقریب سے (آپ لوگ قانون کو برتر مانیں گے یا کتاب اللہ و رسول اللہ کے احکام کو؟ عوام نے بیک زبان کہا:ہم حکم الہی کو برتر مانیں گے) جلسہ کتاب رونمائی میں پروفیسر مصطفیٰ فیضان صاحب کے جواب میں کہیں پروفیسر صاحب کا ماننا اور کہنا یہ تھا کہ ملکی قوانین کے تابع ہی شرعی قوانین کو رکھنا ہوگا.اسکے لیے ہمیں شرعی قوانین میں لچک پیدا کرنا ہوگی.

راقم کا ماننا ہے کہ مولانا محترم وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہویے اس انداز کے بجائے اپنی بات معقول طریقے سے رکھتے تاکہ عوام اور فیضان مصطفیٰ صاحب سبھی اس پر سوچتے اور کسی جذباتی انداز کے بجائے وہ اس بابت کوئی شعوری راہ اپناتے!

بہر حال راقم کا مدعا یہی ہے کہ کسی بھی پیش کردہ باتوں کا تجزیہ بنا کسی رعب و تعصب اور نرے جذباتی و انفعالی کیفیت کے دلائل و حقائق کی روشنی میں ہونا چاہیے!

اس سے ہمیں اعتدال کا راستہ بھی مل جاتا ہے اور منزل بھی قریب قریب دکھائی دینے لگتی ہے!

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button