راجد کے اقدام کا بین السطور : محمد شارب ضیاء رحمانی

سیاسی پارٹیوں میں لاکھ اختلاف ہوں مگر سبھی اس نکتہ پر پوری طرح متفق ہیں کہ کسی بھی طرح مسلم لیڈر شپ کو پنپنے نہیں دیناہے،پارٹی کے اندرکوئی مسلم لیڈر اگر آگے بڑھ رہاہو تواس پرہتھوڑا چلاکر یاتوقابوکیاجائے یاپھراس کی سیاست ہی ختم کردی جائے، جب مسلم لیڈر کا بڑھتا قد برداشت نہیں تو مسلم نام والی پارٹی کیسے برداشت ہوسکتی ہے،راجد کے ذریعہ مجلس کےممبران کی دل بدلی کو اسی زاویہ سے دیکھناچاہیے،تمام پارٹیوں کو ڈر ستانے لگاتھا کہ یہ تعدادپانچ سے پندرہ بھی ہوسکتی ہے،اس لیے پہلے ہی سرکچل دو،تاکہ آئندہ مسلمانوں کا اعتماد مسلم نام یا کاز والی جماعت سے ختم ہوجائے اور ووٹ بینک کی سیاست چلتی رہے،کانگریس کا مولانا بدرالدین اجمل کے ساتھ رویہ ہو، غلام نبی آزاد کے ساتھ سلوک ہو،سب اسی نکتہ کے اردگردیے،راجدنے شہاب الدین کے ساتھ، ایس پی نے اعظم خان کے ساتھ،کجریوال نے اپنے مسلم لیڈروں کے ساتھ،این سی پی نے طارق انور اورنواب ملک کے ساتھ جو کچھ کیا سب اسی کی مثال ہے، بلاکسی استثناء سبھی اس نکتے پر عمل پیراہیں-
اویسی صاحب کے طرز سیاست سے ہزارہااختلاف کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان چار ایم ایل ایز نے جو کیا وہ انتہائی غلط ہے، انھوں نے نہ صرف پارٹی کو دھوکہ دیا بلکہ مسلمانوں کی امید توڑی، بھروسہ کمزور کیا اور ان لوگوں کے آلہ کار بنے جن کی سیاست مسلم سیاسی قیادت کو کمزور کرنے کے ارد گرد ہے-اب لوگ کس بھروسہ مجلس کے امیدوار کو ووٹ کریں گے؟ راجد کا مقصد اسی بھروسہ کو کم کرنا تھا اب یقینا وہاں کی سبھی پارٹیاں تیجسوی یادو کی پیٹھ تھپتھپارہی ہوں گی-اور ان سب کو بڑی راحت ملی ہوگی جن کو سیمانچل کے رزلٹ سے بہت تکلیف تھی-
راجداب کس منھ سے بی جے پی کو کوس سکتی ہے،اس نے بھی وہی کام کیا جو مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، کرناٹک میں ہوا-
دراصل سیاست اب نظریے کی نہیں ،مفاد کی ہوتی ہے، کوئی کسی بھی پارٹی میں ہے، اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پارٹی کے نظریات کی وجہ سے وابستگی ہے، بلکہ جہاں اقتدار اور مضبوطی دیکھی، پلٹ گئے، کانگریس اور دیگر پارٹیوں سے بی جے پی میں لیڈران کی شمولیت کو اسی نقطہ نظرسے سمجھناچاہیے،کل اگربی جے پی کمزور ہوئی(جس کاامکان ابھی تو نہیں ہے-)تو بی جے پی کے یہی مینڈک کود کود کر بھاگنے لگیں گے اور سیکولر ہوجائیں گے-سیاست اصول سے نہیں ہوتی،عصری سیاست بے اصولی،دھوکہ اور بے شرمی کا نام ہے جسے میڈیائی زبان میں ماسٹر اسٹروک کہاجاتاہے-
پھر بھی ان چار بہادر ممبران اسمبلی کو اپنے عوام کی امید کا خیال رکھنا چاہیے تھا، ہوسکتاہے انھیں اس کلیہ پر یقین ہوچکا ہو کہ عوام جلد بھول جاتی ہے،اگلے الیکشن میں یاد بھی نہیں ہوگا کہ انھوں نے کیا کیا تھا-لیڈران اسی بھولنے کا فائدہ اٹھاتے ہیں-جیسے ملک، نوٹ بندی کی پریشانیاں،کورونا کی مار، لاک ڈائون کی اذیت بھول کرووٹ کررہاہے-