راجا پکشے خاندان کا عروج جو سری لنکا کے زوال کا سبب بن گیا

سری لنکا کی سیاست میں مخصوص خاندانوں کی حکمرانی کی کہانی نئی نہیں ہے۔ خطے کے دیگر کئی ممالک کی طرح یہاں بھی موروثی سیاست اپنے عروج پر ہے مگر راجا پکشے خاندان نے تو اسے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے، جہاں سے پھر سری لنکا کے زوال کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
اس وقت سری لنکا ایک معاشی بحران اور ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے جہاں اب حکمران مستعفی ہو کر عوامی غضب کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سری لنکا کے اس بحران کو سمجھنے کے لیے اس ملک کے حکمراں خاندانوں سے متعلق معلومات بھی ضروری ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کولمبو کی سیاست کے رُخ کا تعین کون اور کس طرح کرتا ہے۔
سری لنکا میں موروثی سیاست کی تاریخ
ایک زمانے میں ملک میں بندرانائیکے خاندان کا بول بالا تھا۔ راجا پکشے خاندان سے قبل سری لنکا میں ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے وزیر اعظم بنے۔ ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے کو 26 ستمبر 1959 کو ایک بودھ انتہا پسند نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ان کے بعد ان کی اہلیہ سری ماؤ بندرانائیکے سیاست میں آئیں۔ 20 جولائی 1960 کو سری لنکا کے عوام نے انھیں وزیراعظم منتخب کیا۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔
اس کے بعد سریما بندرانائیکے کی پوتی چندریکا کمارا ٹنگا ملک کی صدر بن گئیں۔ چندریکا سنہ 1994 میں سری لنکا میں صدارت کا منصب سبنھالنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
لیکن بندرانائیکے خاندان نے کبھی بھی راجا پکشے خاندان کی طرح ملک کے اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کیا۔
سری لنکا کا مکمل کنٹرول
کولمبو میں مقیم ایک سیاسی مبصر جے دیو اوانگوڈا نے گذشتہ برس میڈیا کو بتایا: ’ماضی میں سری لنکا میں سیاسی خاندانوں کا غلبہ رہا ہے جیسے سینانائیکے، جے وردھنے اور بندرانائیکے، لیکن راجا پکشے خاندان نے خاندان پرستی کی نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔‘
گذشتہ 15 برسوں میں اس خاندان نے سیاست میں کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح یہ خاندان ملکی سیاست میں مرکزی اہمیت حاصل کر گیا۔
ایک طرح سے مہندا راجا پکشے اس خاندان کے سربراہ ہیں۔ تاہم، ان کے چھوٹے بھائی گوتابایا راجا پکشے شمالی سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف خانہ جنگی میں اپنے متنازع کردار کے باعث بہت مشہور ہوئے۔
وہ اس وقت صدر ہیں لیکن تازہ ترین سیاسی ہلچل کے بعد انھوں نے بدھ کے روز مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اب وہ بیرون ملک منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک راجا پکشے خاندان کے پانچ افراد سری لنکا کی حکومت میں وزیر تھے، ان میں سے چار بھائی تھے، اور پانچواں ان بھائیوں میں سے ایک کا بیٹا تھا۔
صدر گوتابایا راجا پکشے وزیر دفاع بھی تھے۔ مہندا راجا پکشے وزیر اعظم، چمل راجا پکشے وزیر آبپاشی، باسل راجا پکشے وزیر خزانہ، نمل راجا پکشے وزیر کھیل (مہندا راجا پکشے کے بیٹے) تھے۔
جے دیو اوانگوڈا کہتے ہیں کہ ’پہلے سیاسی خاندان صرف حکومت کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے لیکن یہ خاندان پورے نظام کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ بہت سی وزارتیں، محکمے اس خاندان کے پاس ہیں۔ یہ نظام پر قبضہ کرنے جیسا ہے۔‘
آئیے اس خاندان کے چند اہم افراد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مہندا راجا پکشے
مہندا راجا پکشے پہلی بار سنہ 1970 میں 24 سال کی عمر میں سری لنکا کے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ وہ اس عمر میں رکن اسمبلی بننے والے اب تک کے سب سے کم عمر رکن ہیں۔
لیکن وہ سیاست میں پہلے راجا پکشے نہیں تھے۔ ان کے والد ڈی اے راجا پکشے بھی سنہ 1947 سے سنہ 1965 تک ہمبنٹوٹا سے رکن اسمبلی تھے۔
مہندا راجا پکشے تیزی سے سیاسی میدان میں آگے بڑھے اور سری لنکا فریڈم پارٹی (ایس ایل ایف پی) کے سربراہ بن گئے۔ سنہ 2004 میں وہ پہلی بار مختصر عرصے کے لیے وزیر اعظم بنے۔
اگلے سال وہ سری لنکا کے صدر بن گئے۔ جنوری 2010 میں وہ سابق آرمی چیف سنات فونسیکا کو شکست دے کر دوبارہ صدر بن گئے۔
راجا پکشے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا سیاسی کیریئر ایسے واقعات کا گواہ رہا ہے جب انھوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا ہے۔ تاہم راجا پکشے نے اس کی تردید کی ہے۔
ان کے ناقدین شمالی سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف مہم کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
لیکن راجا پکشے نے دلیل دی ہے کہ لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای)، مسلح باغیوں کا ایک گروپ، اپنے آپ کو جنگجوؤں اور شہریوں کو الگ رکھنے میں ناکام رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے تامل باغیوں اور سری لنکن فوج دونوں پر تشدد کا الزام لگایا ہے۔
وہ اپنی دوسری میعاد میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے لیکن ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت نے متحدہ اپوزیشن کو موقع فراہم کیا اور سنہ 2015 کے انتخابات میں راجا پکشے کو شکست ہوئی۔
لیکن سنہ 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر کے دن ہونے والے دھماکوں نے ایک بار پھر راجا پکشے خاندان کو سیاست میں ایک نئی صورتحال سے دوچار کر دیا۔
سنہالی لوگوں کے لیے مہندا راجا پکشے وہ واحد رہنما تھے جو مؤثر طریقے سے انتہا پسندی سے لڑ سکتے تھے۔
اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں، مہندا راجا پکشے کے بھائی گوتابایا راجا پکشے ان کی پارٹی کے صدارتی امیدوار بن گئے اور جیت گئے۔
گوتابایا راجا پکشے
سری لنکا کے موجودہ صدر ننداسینا گوتابایا راجا پکشے سری لنکا کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل رہ چکے ہیں۔ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد گوتابایا سنہ 1998 میں امریکہ چلے گئے۔
سنہ 2005 میں، وہ اپنے بڑے بھائی مہندا راجا پکشے کی صدارتی عہدے کے لیے انتخاب میں مدد کرنے کے لیے سری لنکا واپس آئے۔ مہندا نے الیکشن جیتا اور گوتابایا کو وزیر دفاع کا عہدہ سونپا گیا۔
یہ سری لنکا کی سیاست کو کنٹرول کرنے کے لیے راجا پکشے خاندان کے عمل کا آغاز تھا۔ ان کی قیادت میں سری لنکن فوج نے ملک کے تامل باغیوں کے خلاف جنگ جیتی۔
ایل ٹی ٹی ای کے خلاف یہ فتح تنازعات سے بھری ہوئی تھی اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے سری لنکا کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔
لیکن تمام تنازعات کے باوجود بھی راجا پکشے خاندان کا سیاسی ستارہ چمکتا رہا۔ سنہ 2015 میں اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئیں اور راجا پکشے خاندان اقتدار سے بے دخل ہو گیا۔
سال 2018 تک گوتابایا اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار بن گئے۔ سال 2019 میں ہونے والے انتخابات میں گوتابایا سخت اور قوم پرست کے روپ میں میدان میں اترے اور الیکشن جیت کر صدر بن گئے۔
مگر راجا پکشے حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے
صدارت حاصل کرنے کے بعد راجا پکشے خاندان کے اور بھی بہت سے افراد آہستہ آہستہ اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے چلے گئے۔ لیکن صرف ایک سال بعد ہی دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی اور سری لنکا آہستہ آہستہ معاشی دباؤ میں آنے لگا۔
چین اور انڈیا کی سرمایہ کاری کے باوجود سری لنکا کی مالی حالت ابتر ہوگئی۔ سنہ 2021 کے آخر تک حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
ملک پر گوتابایا کی مضبوط گرفت کے باوجود، بڑھتا ہوا بین الاقوامی قرض سری لنکا کے لیے وبال بن گیا۔ سری لنکا نے ڈیفالٹ کرنا شروع کر دیا۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس سے نکلنا ناممکن ہو گیا۔
گوتابایا نے محسوس کیا کہ ایل ٹی ٹی ای کے خلاف فتح کے بعد دارالحکومت کولمبو میں وہ اب ایک مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ لیکن ٹیکس میں چھوٹ اور آرگینک فارمنگ جیسے فیصلوں نے سری لنکا کو مشکلات میں دھکیل دیا۔
اس سال 31 مارچ کو سینکڑوں مظاہرین نے ان کی نجی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا۔ اس دن ہی واضح تھا کہ اب یہ حکومت زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔
اس صورتحال کے باوجود گوتابایا نے ’گوتا گھر جاؤ‘ کے نعرے کو نظر انداز کیا۔
گوتابایا نے اپنے بھائیوں کو حکومت سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم مہندا راجا پکشے، وزیر خزانہ باسل راجا پکشے اور وزیر دفاع چمل نے حکومت چھوڑ دی۔
باسل راجا پکشے
باسل راجا پکشے، تلسی مہندا اور گوتابایا کے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی اور حال ہی میں وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔
دو ماہ قبل سری لنکا کے لیے مالی مدد حاصل کرنے کی غرض سے انھوں نے انڈیا کا بھی دورہ کیا۔ باسل راجا پکشے نے سنہ 1977 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ لیکن انھیں ابتدائی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
انھیں سنہ 2005 میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کے لیے نامزد کیا گیا تھا جب مہندا راجا پکشے نے انتخاب جیت لیا اور صدر بن گئے۔ وہ سنہ 2010 کے پارلیمانی انتخابات میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
گذشتہ سال انھیں ایک بار پھر پارلیمنٹ کے نامزد رکن کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد انھیں ملک کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ لیکن بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں اور کورونا وائرس کے اثرات کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت خراب ہونے لگی ہے۔
باسل راجا پکشے امریکی شہریت کے حامل ہیں، اس لیے آئین میں تبدیلی کر کے ان کے رکن پارلیمنٹ اور وزیر خزانہ بننے میں قانونی رکاوٹیں دور کر دی گئیں۔
بگڑتی صورتحال کے درمیان باسل نے پارلیمنٹ سے دور رہنا شروع کر دیا۔ انھیں بدعنوانی جیسے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
اپریل 2015 میں انھیں ایک مالی بدعنوانی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے بھائی کے دوسرے دور حکومت میں اقتصادی ترقی کے وزیر رہ چکے ہیں۔ ان پر دو دیگر افراد کے ساتھ مل کر سرکاری املاک ہتھیانے کا الزام تھا۔
اسی طرح کے بدعنوانی کے الزامات مہندا اور گوتابایا پر بھی لگائے گئے ہیں، لیکن اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی انتقام کے لیے کیا جا رہا ہے۔
چمل راجا پکشے
بھائیوں میں چمل راجا پکشے تیسرے نمبر پر ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں کی حکومت میں کئی اہم وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔ چمل، جو سنہ 1989 سے سری لنکا کی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، ماضی میں بندرگاہوں اور ہوابازی جیسی وزارتیں سنبھال چکے ہیں۔
وہ 2010 سے 2015 تک سری لنکا کی پارلیمنٹ کے سپیکر بھی رہے۔
چمل دراصل راجا پکشے بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ حال ہی میں وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کی حکومت میں وزیر دفاع تھے۔
راجا پکشے کے چار بھائیوں کے بعد ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی سری لنکا کی سیاست میں مداخلت کر رہے ہیں۔ مہندا راجا پکشے کے بیٹے نمل راجا پکشے سری لنکا کے وزیر کھیل رہ چکے ہیں۔
حال ہی میں خبریں سامنے آئی ہیں کہ نمل کی اہلیہ لیمنی ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کے درمیان اپنے بچے کے ساتھ پیرس چلی گئی ہیں۔
راجا پکشے خاندان کا مستقبل کیا ہے؟
راجا پکشے خاندان سے وابستہ کم از کم 18 افراد کچھ عرصہ پہلے تک سری لنکا کی حکومت کا حصہ تھے۔ سری لنکا میں گذشتہ اختتام ہفتہ پر نظر آنے والے مناظر کا اثر راجا پکشے خاندان کے اثر و رسوخ پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
پُرتشدد جھڑپوں کے اثرات اب بھی واضح ہیں۔ بہت سے سیاستدان عوام میں جانے اور سیف ہاؤس میں چھپنے سے گریز کر رہے ہیں۔
مہندا راجا پکشے، جو کسی وقت تمل ٹائیگر باغیوں کو شکست دینے کے بعد سنہالیوں کی نظر میں جنگی ہیرو سے کم نہیں تھے، اچانک ولن بن گئے ہیں۔ راجا پکشے خاندان ہمیشہ مشکل ترین لمحات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا رہا لیکن اس بار ان کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ صدر گوتابایا راجا پکشے اور وزیراعظم مہندا راجا پکشے کے استعفوں کے بعد شروع ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہنے والا راجا پکشے خاندان سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔
سری لنکا میں تباہ کن معاشی بحران سے نمٹنے کی ناکام حکومتی کوششوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے والے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں۔
سری لنکن فوج نے تصدیق کی ہے کہ صدر کے بڑے بھائی اور خود دو مرتبہ صدر رہنے والے مہندا راجا پکشے ملک کے شمال مشرق میں حفاظت کی غرض سے ایک بحری اڈے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ملک گیر کرفیو کے باوجود مختلف شہروں میں آتش گیر مادے کے حملے جاری ہیں اور کولمبو کے قریب دکانوں اور سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کے بیٹے کی ایک نجی تفریح گاہ کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔
صدر گوتابایا راجاپکشے نے ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کیا ہے جس میں انھوں نے قانون کی عملداری بحال کرنے کا عزم دہرایا ہے۔
تقریر میں اپنے استعفے کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے صدر راجاپکشے نے کچھ اختیارات پارلیمان کو دینے اور نئے وزیراعظم کی تقرری کی پیشکش کی تاہم اس حوالے سے انھوں نے کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا۔
گوتابایا راجا پکشے کے بھائی مہندا راجا پکشے نے ایندھن اور خوراک کی قلت پر عوامی غصے اور احتجاج کے بعد پیر کو استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ بحریہ کے ایک اڈے میں چھپے ہوئے ہیں۔
پیر سے جاری بدامنی کے واقعات میں کم از کم نو افراد ہلاک اور تقریباً 200 زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب حکومت کے حامیوں نے ان مظاہرین پر حملہ کیا جو مطالبہ کر رہے تھے کہ سابق وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی صدر گوتابایا راجا پاکشے اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں۔
حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ دینے کے لیے تشدد کے واقعات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے بھی ممکنہ بغاوت کی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔ تاہم فوج نے اس بات کی تردید کی ہے۔
سری لنکا کی معاشی حالت اور اس خاندان پر عوامی غصے کے بعد یہ سوچنا بظاہر مشکل ہے کہ اس خاندان کا ملکی سیاست میں کوئی مستقبل ہوگا۔ لیکن سیاست غیر یقینی صورتحال کا نام ہے اور کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے سیاسی منظرنامے سے باہر ہو گیا، ایک گمراہ کن تصور بھی ہو سکتا ہے۔