خلع اورنکاح کی منسوخی کا اختیار شرعی کونسل کے بجائے کورٹ کو ہے: مدراس ہائی کورٹ

چنئی، یکم فروری(ہندوستان اردو ٹائمز) مدراس ہائی کورٹ نے منگل کو اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا کہ شریعت کونسل نہ تو عدالتیں ہیں اور نہ ہی ثالث جنہیں شادی کو منسوخ کرنے کا اختیار ہو لہٰذاہائی کورٹ نے قانونی طور پر جائز طلاق کی خواہش مند مسلم خواتین کو صرف فیملی کورٹس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
2017 میں مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس سی سراوانن نے شریعت کونسل کی طرف سے جاری کردہ طلاق کے سرٹیفکیٹ کو ایک طرف رکھ دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اگرچہ مسلم پرسنل لا (شریعت) ایکٹ کے تحت مسلم عورت کو خلع کے ذریعے طلاق حاصل کرنا حق حاصل ہے، لیکن یہ صرف فیملی کورٹ کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مدراس ہائی کورٹ کے جج سی سراوانن نے درخواست دائر کرنے والے ایک شخص کی بیوی کو ہدایت کی کہ وہ اپنی شادی کی قانونی طلاق کے لیے تامل ناڈو لیگل سروسز اتھارٹی یا فیملی کورٹ سے رجوع کرے۔ جسٹس سراوانن نے کہا کہ روایتی قانون کے تحت بھی جماعت کے چند اراکین پر مشتمل خود ساختہ ادارہ طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کر سکتا۔
اپنی درخواست میں شوہر نے دلیل دی تھی کہ عدالتی نظام سے باہر کے احکامات جیسے کہ فتوے یاخلع سرٹیفکیٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اسے کسی فرد یا ‘نجی’ ادارے کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ مدراس ہائی کورٹ میں درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے، مقامی شریعت کونسل نے دلیل دی کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اسی طرح کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس پریکٹس کو برقرار رکھا ہے۔اس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس سراوانن نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے مسلم خاتون کے یکطرفہ طور پر صرف خلع کے ذریعے طلاق دینے کے حق کو برقرار رکھا ہے۔کیرالہ ہائی کورٹ نے شریعت کونسل جیسے نجی اداروں کی شمولیت کی حمایت نہیں کی ہے۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ شریعت کونسل جیسا نجی ادارہ خلع کے ذریعے طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کر سکتا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ فیملی کورٹ ایکٹ، مسلم میرج ڈسسولیشن ایکٹ اور مسلم پرسنل لا (شریعت) کی دفعہ 7(1)(بی) کے تحت صرف فیملی کورٹ کو ہی شادی کو تحلیل کرنے کا حق حاصل ہے۔