مضامین

حج کی فضیلت: (قسط نمبر 2 ) مفتی محمد مقبول قاسمی

*فرضیت حج کی شرائط*
حج کی شرائط دو قسم کی ہیں:
1۔ حج کے فرض ہونے کی شرائط
2۔ حج کی ادائیگی کی شرائط؛
حج ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے’ بلکہ حج کے فرض ہونے کی چند شرائط ہیں جو ذیل میں تحریر کیا جا رہا ہے

1۔ مسلمان ہونا؛
حج اور اسلام کی باقی عبادات کے فرض ہونے کی اولین شرط اسلام ہے۔ کسی بھی غیر مسلم پر اسلام کی کوئی عبادت فرض نہیں ہے۔

2 آزاد ہونا؛
آزادی حج کی دوسری شرط ہے’ اس لیے غلام خواہ اپنی غلامی کے دنوں میں کئی حج بھی کر لے’ لیکن جب وہ آزاد ہو گا تو اس کے ذمے (بشرطِ استطاعت) حج فرض ہو گا۔ اس نے غلامی کے دنوں میں جو حج کیے ہیں اُن کی حیثیت نفلی حج کی ہو گی۔

۰صاحب استطاعت، اگر کسی شخص میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہیں لیکن اس کے پاس مکہ مکرمہ جانے کے لیے سواری’ زادِ راہ اور قدرت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔ حج کے لیے ایک شرط صاحبِ استطاعت و صاحبِ قدرت ہونا ہے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث دونوں میں وضاحت موجود ہے؛
سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا:
ترجمہ:۔ اور لوگوں کے ذمہ اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ) اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔”
بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی یہ وضاحت موجود ہے’ مثلاً حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:۔ جو شخص زادِ راہ اور سواری کا مالک ہے جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور وہ حج نہ کرے تو پھر (اللہ تعالیٰ کو) اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: ”اللہ کے واسطے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو اُس تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں۔”

*حج کی ادائیگی کی شرائط*
جس شخص میں حج کی فرضیت کی مندرجہ بالا شرائط پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہے۔ اب اس حج کو ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے اور حج کی ادائیگی کی بھی مندرجہ ذیل چند شرائط ہیں۔ یہ شرائط جس شخص میں پائی جائیں گی اس کے ذمے خود سے حج ادا کرنا ضروری ہو گا۔ اس صورت میں یہ شخص اپنی جگہ کسی اور کو حج کے لیے نہیں بھیج سکتا۔

1 صحت مند ہونا:
حج کی ادائیگی کی اولین شرط صحت مند اور تندرست ہونا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کا سفر نہیں کر سکتا تو اس پر خود سے حج کی ادائیگی فرض نہیں ہے۔

2 راستے کا پُر امن ہونا:
اگر راستہ پر امن نہیں ہے تو اس صورت مین بھی اس شخص پر حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہے’ لیکن اب چونکہ ہوائی جہاز جیسی سفری سہولیات میسر ہیں کہ انسان ہزاروں میل کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے تو اب یہ شرط تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔

*حج بدل اور اس کے احکام:*
حج کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا کسی کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے یا نہیں’ اگر کیا جا سکتا ہے تو اس کے احکام کیا ہیں؟ اس حوالے سے یہ نوٹ کر لیں کہ اگر کسی شخص میں حج کی فرضیت کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن اس میں حج کی ادائیگی کی کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں یہ شخص اپنی طرف سے کسی اور کو حج کے لیے بھیج سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج خالص بدنی عبادت نہیں’ بلکہ مالی اور بدنی عبادات کا مجموعہ ہے’ اس لیے اس میں کسی دوسرے کی نیابت مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔ البتہ نماز اور روزہ چونکہ خالص بدنی عبادات ہیں’ اس لیے ان میں کسی کی نیابت مجبوری کی حالت میں بھی جائز نہیں ہے’ یعنی نماز یا روزہ کسی اور کی طرف سے ادا نہیں کیا جا سکتا؛
کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے کو فقہی اصطلاح میں ”حج بدل” کہا جاتا ہے۔

*حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے*

شریعت کی رو سے پوری زندگی میں حج صرف ایک بار فرض ہے اس کے بعد اگر کوئی حج کرتا ہے تو اسکی حیثیت نفل کی ہوگی، بعض لوگ تو ایسے ہیں جو استطاعت کے باوجود اپنا فرض حج ادا نہیں کرتے اور بعض ایسے ہیں جو ہر سال حج کے لئے جاتے ہیں۔ صاحب استطاعت لوگوں کو چاہئے کہ ہر سال خود حج پر آنے کے بجائے اپنے رشتہ داروں میں سے کسی غریب کو حج کرا دیں یا کسی غریب کی مدد کر دیں۔ یہ نفلی حج سے زیادہ ثواب کے کام ہیں۔ رہے وہ لوگ جو استطاعت کے باوجود حج پر نہیں جاتے تو وہ اس تاخیر کے سبب گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں اپنا فرض حج ادا کریں؛

*حج اکبر اور حج اصغر کی اصطلاح*

اکبر کے معنی بڑے اور اصغر کے معنی چھوٹے کے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے یہ بے علمی دیکھنے میں آئی ہے کہ حج اگر جمعہ والے دن ہو تو اُس کو حج اکبر کہا جاتا ہے اور اگر جمعہ کے علاوہ باقی کسی دن ہو تو اس کو حج اصغر مانا جاتا ہے، حالانکہ شریعت اسلامی کے رو سے ایسا نہیں ہے۔ شریعت میں عمرہ کو حج اصغر اور حج (چاہے وہ کسی بھی دن ہو) کو حج اکبر کہا گیا ہے اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیا جو قربانی والے دن مقام منیٰ میں اس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے؛ اور کعبہ کا طواف کوئی شخص برہنہ ہو کر نہ کرے؛ اور حج اکبر قربانی والے دن ہے؛ اس کو حج اکبر اس لیے کہا گیا ہے کہ (دور جاہلیت میں) بعض لوگ عمرہ کو حج اصغر کے نام سے موسوم کرتے تھے (14)

استطاعت کے باوجود حج میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ؛

ہمارے معاشرے میں یہ کوتاہی بہت عام ہوتی جا رہی ہے کہ ایک شخص میں حج کے فرض ہونے اور حج کی ادائیگی کی تمام شرائط پائی جاتیں ہیں لیکن وہ بلاوجہ حج کرنے میں تاخیر کرتا رہتا ہے۔ ایسا کرنے کی سخت وعید آئی ہے۔ امام شافعیؒ اور امام محمدؒ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود حج میں تاخیر کرتا ہے تو وہ اس تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہے.؛؛
دوسری کوتاہی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت حج کے لئے بڑھاپے کا انتظار کرتی ہے اور اس وقت حج پر جاتی ہے جب ان میں کمزوری اس قدر ہو جاتی ہے کہ حج کے مناسک ادا کرنے میں ان کو بہت تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں چاہئے کہ قدرت اور استطاعت ہوتے ہی حج کے لئے چلے جائیں اور اس معاملے میں صحت اور جوانی کو بیماری اور بڑھاپے پر ترجیح دیں۔

*حج کی اقسام اور انکی تعریف*
حج کی ادائیگی کا طریقہ بیان کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حج کی اقسام بیان کی جائیں۔ حج کی تین قسمیں ہیں:

1۔حج اِفراد کے لغوی معنی ہیں: اکیلا اور تنہا جبکہ شرعی اصطلاح میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ ملانا، ”حج اِفراد” کہلاتا ہے؛
حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد” کہاجاتا ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک ”حج اِفراد” افضل ہے۔ (اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ مفرد پر قربانی واجب نہیں، مستحب ہے،
جبکہ حج کی باقی دونوں اقسام میں قربانی واجب ہوتی ہے۔)

2۔ حج قِران:
قران (ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں؛ چیزوں کو باہم ملا دینا، جبکہ شرعی اصطلاح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے ساتھ پہلے عمرہ اور پھر حج ادا کرنا ا ور درمیان میں احرام نہ کھولنا، حج قران کہلاتا ہے؛؛
حج قران کرنے والے کو ”قارن” کہا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قرآن افضل ہے۔

3۔ حج تمتع؛؛
تمتع کے لغوی معنی ہیں نفع اٹھانا جبکہ شرعی اصطلاح میں عازم حج کا میقات سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اور عمرہ کے افعال و مناسک ادا کرنے کے بد احترام کھول دینا اور پھراسی سال حج کے دونوں میں حج کی نیت سے دوبارہ احرام باندھنا اور مناسک حج ادا کرنا، حج تمتع کہلاتا ہے۔ حج تمتع کرنے والے کو ”متمتع” کہا جاتا ہے۔ امام مالک کے نزدیک حج تمتع افضل ہے ( ہندوستان کی اکثریت حج تمتع کرتی ہے)
حج کی قسموں کے ساتھ یہ قسط مکمل ہوئی.
اگلی قسط کا انتظار کیجئے ؛
مفتی محمد مقبول قاسمی؛

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button