حج کی فضیلت (قسط اول) مفتی محمد مقبول قاسمی

محترم قارئین؛
توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز‘ روزہ‘ زکوۃ اور حج اسلام کے عناصرِ اربعہ ہیں۔ ایسی کئی احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں چیزوں کو اسلام کے ارکان اور ستون بتایا ہے۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اسلام کی بنیاد پر پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:
اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؛
نماز قائم کرنا؛
زکوۃ ادا کرنا؛
بیت اللہ کا حج کرنا؛
اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا؛
ان عبادات میں سے نماز اور روزہ خالص بدنی‘ زکوٰۃ خالص مالی‘ جبکہ حج بدنی اور مالی عبادات کا مجموعہ ہے‘ اس لیے کہ اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور انسانی جسم کی توانائیاں بھی۔
حج کب فرض ہوا ؟
حج کی فرضیت کے بارے میں مؤرخین کے درمیان قدرے اختلاف ہے؛ کسی نے سنہ 6ھ؛ تو کسی نے سنہ8ھ لکھا ہے؛ لیکن زیادہ تر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حج کی فرضیت سنہ 9ھ لکھا ہے اور اسی پر سب کا اتفاق بھی ہے کہ حج کی فرضیت سنہ 9 میں ہوئی ؛
حج کی و اہمیت؛
ترجمہ:۔ ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے؛
( آل عمران آیت 97)
اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کو مزید وضاحت فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:۔’’جو شخص زادِراہ اور سواری کا مالک ہے جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور وہ حج نہ کرے تو پھر کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے؛
اللہ کے واسطے ان لوگوں پر حج فرض ہے جو اُس تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں؛ (آل عمران آیت 97)
حضرت ابو امامہؓ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:۔ جس شخص کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو‘ نہ کسی ظالم سلطان نے اور نہ کسی روکنے والے مرض نے اور پھر بھی اس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت میں اسے موت آ جائے تو (اللہ کو کوئی پروا نہیں) خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی بن کر۔‘‘
اسی کی تشریح میں حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے کہ:
جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے‘ میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں‘ وہ مسلمان نہیں ہیں‘ وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ حج کا فریضہ ایسا نہیں ہے کہ اگر چاہیں تو ادا کر لیں اور اگر چاہیں تو چھوڑ دیں۔
البتہ حج کی فرضیت اور حج کی ادائیگی کی چند شرائط بھی ہیں جن کا تذکرہ آگے آریا ہے؛
حج کی فضیلت: احادیث نبوی کی روشنی میں:۔
ذیل میں چند احادیث پر مبارکہ بطورِ مثال بیان کی جاتی ہیں جن سے حج کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘۔ کہا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد‘‘۔ کہا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: مقبول حج۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:۔ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس میں بے حیائی کی بات نہ بولے اور گناہ کا کام نہ کرے تو وہ لوٹ کر آتا ہے (اور گناہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے)گویا اس کی ماں نے اس کو آج جنا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:۔ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:ترجمہ:۔ پے درپے حج اور عمرے کیا کرو‘ اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے‘ سونے اور چاندی کی میل کچیل دور کر دیتی ہے۔ اور حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
۰ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا؛
ترجمہ:۔ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں‘ اگر وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو اُن کو بخش دیتا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ کہ میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:
ترجمہ:۔ اللہ کے مہمان تین ہیں : جہاد کرنے والا‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا۔‘‘
بقیہ باتیں اگلے قسط میں؛ اگلے قسط کا انتظار کیجئے؛