دیوبند

جامعہ امام محمد انور شاہ میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی وفات پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد

مولانا نسیم کی رحلت صرف دارالعلوم وقف اور جامعہ امام محمد انور شاہ کا نقصان نہیں، بلکہ دیوبند کا نقصان ہے۔مولانا احمد خصر شاہ

دیوبند،13؍ستمبر(رضوان سلمانی) جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں صاحبِ طرز ادیب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی وفات پر تعزیتی جلسہ منعقد ہوا، جس کی صدارت جامعہ کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے کی۔ جلسے کا آغاز عزیزم توقیر سپولوی کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔اس موقع پر صدرِ جلسہ مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے اپنے تعزیتی خطاب میں کہا کہ برادرِ گرامی مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ میں اس وقت اپنے آبائی وطن لولاب کشمیر میں تھا۔ مجھے خبر ملی تو اولاً یقین نہیں آیا کہ یہ سانحہ پیش آ چکا ہے۔ بعد میں برادرِ مکرم سید وجاہت شاہ کا فون آیا تو یقین کرنا پڑا۔ ہر ممکن کوشش کی جلد از جلد دیوبند پہونچوں مگر کامیابی نہ مل سکی۔ عجیب اتفاق ہے کہ اپنے تائے ابا مولانا سید ازہر شاہ قیصر کے تینوں صاحب زادوں میں سے کسی کی بھی وفات پر میں موجود نہیں رہا، جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس وقت امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ دنیا سے اٹھے ہیں، ان کے دونوں صاحب زادے کم سن تھے۔ مولانا ازہر شاہ قیصر کی عمر تیرہ برس تھی اور میرے والدِ گرامی فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری چار سال کے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کو والد کا سایہ نہیں ملا، مگر اپنی محنت اور لگن سے دونوں نے علم کے مختلف میدانوں میں اپنی شناخت قائم کر لی۔ تائے ابا مولانا سید ازہر شاہ قیصر نے تحریر و انشا میں وہ کمال حاصل کیا کہ اپنے دور میں اردو والوں کے محبوب ترین قلم کار تھے۔ ان کی تحریروں کی تازگی اور چاشنی آج بھی برقرار ہے۔ والدِ گرامی حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری قدس سرہ نے درس و تدریس کی مسند سنبھالی اور اپنے یگانۂ روزگار والد کے علوم کو چار دانگِ عالم میں پھیلا دیا۔ مولانا نسیم اختر شاہ صاحب نے اپنے والد کے طرز پر تحریر و انشا ہی کو اپنی جولان گاہ بنایا اور اس میدان کے شہسوار کہلائے۔مولانا احمد خصر نے کہا کہ مرحوم کی ان کی تحریروں میں بلا کی روانی، کشش اور مزہ ہوتا تھا۔ جس سے ان کا تعلق ہوتا اس پر مضمون ضرور لکھتے، وہ شخص بھی ان کے زیرِ قلم آیا جو سادہ، گمنام اور عام زندگی گزار کر دنیا سے چلا گیا۔ وہ لکھتے نہیں تھے، مرحومین کی نبض پر حیات کا انجکشن لگاتے تھے،سینکڑوں کو ان کے قلم نے زندگء جاوید عطا کی۔

مولانا احمد خضر نے کہا کہ وہ دینی، سیاسی اور شخصی موضوعات پر بھرپور لکھتے تھے مگر شخصیات پر لکھتے وقت ان کے قلم کی توانائی اور شباب بھرپور عروج پر ہوتا تھا۔ مولانا مرحوم کی ایک خوبی ان کے تعلقات میں تنوع تھا۔ ہر گوشہ ٔحیات کے لوگوں سے ان کی رسم و راہ تھی۔ ان کے حلقۂ احباب میں صرف اہلِ علم اور اربابِ قرطاس ہی نہیں تھے۔ صحافی، ڈاکٹر، انجینئر، سبزی فروش اور رکشہ چالکوں تک سے تھے۔ ان میں سے جس سے بھی اور جہاں کہیں بھی ملاقات ہوتی خیر خیریت ضرور لیتے۔ میرے گھر ہر پندرہ دن میں کم از کم ایک بار ضرور آتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کر کے ہماری دل بستگی کرتے۔ مولانا احمد نے کہاکہ جامعہ سے ان کا لگاؤ یومِ تاسیس ہی سے تھا۔ اس کے ہر پروگرام میں ان کی شرکت لازمی تھی۔ ان کی موجودگی گرمء مجلس کا سبب بنتی۔ وہ حاضر جوابی اور خوش مزاجی میں بھی قابلِ رشک تھے۔ کشادہ دستی میں بھی وہ بہتوں سے آگے بڑھ چکے تھے۔ کسی نے ضرورت پیش کی تو ایسا بھی ہوا کہ دوسروں سے قرض لے لے کر اس کی مشکل کشائی کی۔ فارسی کا ایک مقولہ ہے: بے تکلف زیستن خوش زیستن۔

مولانا مرحوم اس کے مصداق تھے۔ سادگی سے بھرپور اور تصنع سے پاک زندگی گزاری۔ مولانا کشمیری نے مزید کہا کہ مولانا نسیم اختر شاہ اب زمین پر چلتے پھرتے نہیں ملیں گے مگر ان کی یادیں دل میں ہمیشہ رہیں گی۔ ان کی رحلت صرف دارالعلوم وقف اور جامعہ امام محمد انور شاہ کا نقصان نہیں، بلکہ دیوبند کا نقصان ہے۔ ان کے جیسا صاحبِ قلم اب کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ کلمہ پڑھتے ہوئے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے جس سے امید ہے کہ آخرت کے تمام مراحل ان شاء اللہ بآسانی طے کر لیں گے۔ جامعہ کے استاذِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات مولانا سید فضیل احمد ناصری نے کہا کہ مولانا نسیم اختر شاہ زندگی بھر لوگوں کو گدگداتے اور ان کا غم دور کرتے رہے، مگر اس طرح گئے کہ چاہنے والوں کی آنکھیں اب بھی نمناک ہیں۔ وہ اپنے علم، اپنے قلم، اپنی ظرافت، اپنی حاضر جوابی، اپنی بلند اخلاقی، اپنی عالی ظرفی کے سبب ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ جامعہ کے صدر المدرسین مولانا مفتی وصی احمد قاسمی بستوی نے کہا کہ مولانا نسیم اختر شاہ صاحب خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ جس سے ایک بار تعلق ہو جاتا تو اسے کسی قیمت پر نہ توڑتے تھے۔ ان کی مجلسیں مختصر ہوں یا دراز تر، شرکا کو اخیر تک تروتازہ رکھتیں۔ وہ کامیاب اور مقبول مدرس بھی تھے، مگر ان کا اصل میدان مضمون نگاری تھی۔ فراغت کے بعد سے ہی درس و تدریس اور مضمون نویسی سے لگ گئے اور زندگی کے کسی موڑ پر کبھی سست نہیں ہوئے، بلکہ آخر تک مسلسل سرگرمِ عمل رہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ مفتی نثار خالد دیناجپوری کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔ اس موقع پر جامعہ کے تمام اساتذہ و کارکنان موجود رہے۔ اجلاس سے پہلے طلبہ اور اساتذہ نے قرآن خوانی بھی کی ۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button