مضامین

ترک سرزمین کا روشن منارہ، شیخ محمود آفندی رحمۃاللہ علیہ : محمد ہاشم القاسمی

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل فون :9933598528
عالم اسلام کے عظیم مصلح، صوفی مزاج، معروف اسلامی داعی اور متحرک رہنما شیخ محمود آفندی (محمود استی عثمان اوغلو) 1929 میں ترکی کے صوبے ترابزون کے اوف نامی گاؤں کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان کی جائے پیدائش "ریزے” سے متصل شہر ہے۔ آپ کے والد جید عالم دین تھے دینی ماحول میں پرورش ہوئی، صرف دس سال کی کم عمری میں اپنے والد کے زیر سایہ قرآن مجید حفظ کر لیا.
شیخ تسبیحی زادہ سے نحو، صرف، اور دیگر علوم عربیہ کو حاصل کیا.
اس کے بعد شیخ محمود آفندی شیخ محمد راشد عاشق کوتلوآفندی کی خدمت میں رہ کر ان سے تجوید، قراءت اور علوم قرآن کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں شیخ محمود آفندی نے شیخ دورسون فوزی آفندی (مدرس مدرسہ سلیمانیہ )، سے دینیات، تفسیر، حدیث، ، فقہ اور اس کے ماخذ، علم کلام اور بلاغت اور دیگر قانونی علوم کی تعلیم حاصل کی، اپنے اساتذہ سے انھوں نے علوم عقلیہ ونقلیہ میں اجازت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر 16 سال کی تھی ۔
یکم نومبر 1922ءکو خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مصطفی کمال پاشا کو بابا ترک کے طور پر پیش کر کے اہل مغرب نے سیکولرزم کے نام پر اتنی بے دینی پھیلائی کہ مسلمانوں کے دل میں فقط ایمان بچ گیا ۔ فوج کو سیکولر قانون کا آئینی ذمہ دار بنایا گیا اور بزور بازو 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے اداروں پر پابندی لگائی گئی، یہی نہیں بلکہ خلافت کی اصطلاح کو بھی اسمبلی کے ذریعے منسوخ کیا گیا ۔اور 1926ء میں فقہ اسلامی کو بحیثیت قانون تمام عدالتوں سے ختم کر دیا گیا۔
اب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا تو اسکی تجہیز و تکفین سنت و شریعت کے مطابق کرنے والا کوئی نہ ملتا۔
شیخ محمود آفندی کا تعلق ترکی کے مشرقی علاقہ سے تھا۔آپ کی پیدائش ان حالات میں ہوئی جب ملک سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ اسلامی شعائر پر پابندی لگائی جارہی تھی اسلامی علوم کو شجر ممنوعہ قرار دیا جارہا تھا ۔ان حالات میں اس وقت کے نیک دل، اور دور رس نظر رکھنے والے علماء نے آپکی تربیت کی ۔
شیخ محمود آفندی 18/سال ایک مسجد میں اذان پڑھتے، نماز ادا کرتے رہے، لیکن مسلم محلہ کے کسی شخص کو مسجد میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ہوئی ۔مگر آپ مایوس نہیں ہوئے، آپکے ہمت و استقلال میں زرہ برابر بھی لرزش نہیں آئی اور یونہی آپکی آواز دو عشروں تک صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی ، لیکن آپ مسلسل کوششیں جاری رکھی۔
ع میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر *رراہ رو آتے گئے کارواں بنتا گیا *
آپکی مسلسل محنت، استقلال، اور جد و جہد نے رنگ دکھلایا، آہ سحر گاہی سے پتھر پگھلا،دین بیزاری اور ملحدانہ اعمال کے نتائج بھگت کر اہل ایمان کے قدم مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔اب دھیرے دھیرے شیخ کے پیچھے مصلیوں کی کافی تعداد تھی، لیکن اب بھی دینی تعلیم پڑھنے اور پڑھانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔اسلام کے مکی دور ہجرت سے پہلے کی طرح نہایت خاموشی کے ساتھ موسی امجا (چچا)کے تہہ خانے سے مکتب کی ابتداء ہوئی اور اصحاب صفہ کے نام لیوا ان مکتب کے طلباء سے ایک ایسے انقلاب کی شروعات ہوئی جو ترکی کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوا. اور نام نہاد بابا ۓ ترک مصطفی کمال کے ذریعہ پھیلاۓ گئے بے دینی کے بت کو چکنا چور کرنے والی شخصیت ۔شیخ محمود آفندی تھے، یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنی محنتوں کو ثمر آور ہوتے ہوئے دیکھا۔سعی پیہم ، عمدہ حکمت، بلند ہمت، استقلال، اور اخلاص و للہیت کے ساتھ مسلمانان ترکی کے ایمان کی حفاظت کی اور وارث انبیا ہونے کا حق ادا کر دیا۔
موسی امجا کے تہہ خانے میں شروع کیا گیا مکتب سیکڑوں مدارس اور یونیورسٹیوں کی بنیاد کا سبب اور علوم دینیہ کی حفاظت کا ذریعہ بن گیا ۔اور انہیں اہل مکتب کے فیض یافتہ استاذ اربکان اور ان کے جانشین رجب طیب اردگان نے زمام حکومت سنبھالی تو ترکی ایک طاقتور مسلمان ملک بن کر دنیا میں متعارف ہوا، اور دینی اعتبار سے بھی کئی مسلم ممالک کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا.
1952ء میں، محمود آفندی سے حیدر آفندی (گربزلر) سے ملاقات ہوئی، جو ایک نقشبندی شیخ تھے وہ ان کے مرشد بن گئے۔ علی حیدر آفندی نے انہیں 1954ء میں اسماعیلہ مسجد کا امام مقرر کیا۔ جہاں وہ سال 1996ء تک امام رہے، 1960ء میں علی حیدر آفندی کے انتقال کے بعد محمود آفندی کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ آیا اور وہ اس راستے (طریقہ) کے رہنما بن گئے۔
2005ءمیں مسجد حرام کی تاریخ میں عجیب واقعہ ہوا۔ ایک شیخ عمرہ کا طواف کرنے مطاف میں داخل ہوئے تو 30 ہزارسے زائد مریدین ساتھ تھے۔ سب ایک ہی انداز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ایک ہی انداز میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس عجیب منظر کو عرب اور بین الاقوامی میڈیا میں خوب کوریج دی گئی۔ 30 ہزار پروانوں کے جھرمٹ میں مطاف کو بھر دینے والی یہ شخصیت شیخ محمود آفندی تھے۔(عرب نیوز)
رجب طیب ایردوغان محمود آفندی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ایردوغان نے 2014ء میں صدارتی انتخابات سے ایک رات قبل محمود آفندی (استاؤسمان اوغلو) کی خانقاہ کا انتہائی مشہور دورہ کیا۔واضح رہے کہ ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینا شروع کیا تھا اور جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ ان طالب علموں میں یہ شیخ محمود آفندی نقشبندی بھی شامل تھے اسی طرح دینی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہاں سے شہر کا رخ کیا وہاں ایک قدیم مسجد تھی محمود آفندی نقشبندی جب وہاں رہنے لگے اور چالیس سال تک درس دیتے رہے۔
اس کے علاوہ ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتاترک نے عربی کتاب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی تو شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے گردان پڑھاتے تھے حج اور نماز کے مسئلے بھی ہاتھوں کے اشاروں پر سمجھاتے، اللہ تعالی نے ان کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھا تھا۔شیخ محمود آفندی علمائے دیوبند سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ شیخ آفندی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو چودہویں صدی کا مجدد کہا۔ جنہوں نے اٹھارہ جلدوں میں ترکش تفسیر ”روح الفرقان” لکھی اور اس کی چوتھی جلد کے صفحہ 724 پر مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو شیخ المشائخ اور مولانا ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کو امام, محدّث اور علامہ لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2013 میں شیخ الاسلام شیخ محمود آفندی کو ”امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اوارڈ” سے بھی نوازا۔ (یو این آئی)
عالم اسلام کی نامور روحانی و علمی شخصیت، ترکیہ (سابقہ ترکی) میں احیائے دین کے مرکزی کردار ادا کرنے والے اور عظیم مصلح و داعی الشیخ محمود آفندی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدلنے والے مرشدِ کامل کے سانحۂ ارتحال کو ملتِ اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بھی مرشد اور 500 بااثر ترین مسلم شخصیات میں سے تھے۔ دنیا بھر کے علما و صلحا ان سے روحانی فیض حاصل کرتے اور دست بوسی کیلئے حاضر ہوتے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شیخ آفندی خلافتِ عثمانیہ کی آخری نشانی تھے۔ انہوں نے قرآن و سنت کے نور سے ترکی کے کئی علاقوں کو منور کیا۔ ترکی میں بہت سے ایسے علاقے ہیں، جہاں آپ کو ہر شخص مکمل اسلامی لباس اور وضع قطع میں نظر آئے گا، اس کے پیچھے جس شخصیت کی انتھک محنت کارفرما ہے، بتایا جاتا ہے کہ وہ شیخ آفندی ہی ہیں۔
شیخ آفندی کی جماعت تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ جماعت اپنے خاص لباس کے ساتھ اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اس کی خواتین سیاہ لباس پہنتی ہیں، جسے "شرشف” کہا جاتا ہے۔ جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ جبکہ مردوں کا لباس مشہور عثمانی طرز کا ہے۔ جس میں لمبی قمیص کے ساتھ شلوار، اوپر سے لمبا جبہ اور سر پر سفید عمامہ پہنا جاتا ہے۔ اس جماعت کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ فقہ حنفی پر نہایت شدت سے کاربند ہیں۔ اس لئے یہ سوائے مچھلی کے کوئی سمندری جانور کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اسی طرح جتنی بھی سردی ہو، یہ جرابوں پر مسح نہیں کرتے۔ عربی نہایت فصیح لہجے میں بولتے ہیں۔ جبکہ قرآن فہمی بھی اس جماعت کا خاصہ ہے۔ استنبول ان کا مرکز ہے۔ خاص کرکے "علی عتیق” کا علاقہ ان کا گڑھ ہے۔ یہاں جا کر آپ کو مدینہ منورہ کا گمان ہوتا ہے۔ اس جماعت کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ اس لئے سیاسی قائدین شیخ کی خانقاہ میں حاضری دیتے رہتے ہیں۔ خاص کر صدر رجب طیب اردگان اور سابق وزیراعظم احمد داﺅد اوغلو وغیرہ یہاں آتے رہتے ہیں۔
ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ 2016ءمیں اردگان کے خلاف بغاوت کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار اسی جماعت کا تھا۔ سب سے پہلے علی عتیق کے لوگ ہی سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترے تھے۔ترک جریدے "الزمان” کے مطابق شیخ آفندی کی جماعت کے وابستگان کی تعداد فتح گولن کے مریدین سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ کل آبادی کے کم ازکم 3 فیصد ہیں اور وہ بھی نہایت منظم۔ مجموعی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں خواتین کا الگ شعبہ ہے۔ دینی مدارس کے ساتھ کئی تعلیمی اور رفاہی ادارے یہ لوگ چلا رہے ہیں۔(یہ مواد میں نے الجزیرہ کے احمد درویش کی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔)
شیخ محمود آفندی 23 جون 2022ء کو انفیکشن کی وجہ سے استنبول کے ہسپتال میں داخل ہونے کے دو ہفتے بعد انتقال کر گئے۔ حضرت شیخ محمود آفندی رحمۃاللہ علیہ کی نماز جنازہ استنبول کے ضلع فتح کی جامعہ مسجد میں ادا کی گئی، شیخ محمود آفندی رحمۃاللہ علیہ کے عقیدت مندوں اور سلسلہ نقشبندیہ خالدیہ کے پیروکاروں کی بڑی تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔
انکی وفات پر نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر سے افسوس اور تعزیت کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں. ع آسماں تیری لحد شبنم افشانی کرے.

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button