بیٹا نہ ہو تو وراثت میں پوتوں پوتیوں کا حصہ ہے !! رضی الاسلام ندوی

*بیٹا نہ ہو تو وراثت میں پوتوں پوتیوں کا حصہ ہے -*
محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
محمد یوسف کی دو بیویاں تھیں ۔ پہلی بیوی (اصغری بیگم) کے انتقال کے بعد انھوں نے دوسری شادی انیسہ بیگم سے کی ۔ پہلی بیوی سے انھیں ایک بیٹا (محمد شفیع) اور ایک بیٹی (عابدہ بیگم) تھیں ، جب کہ دوسری بیوی سے ایک بیٹی (عاصمہ بیگم) ہوئی ۔ بیٹے کا انتقال محمد یوسف کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا ، جس کی تین اولادیں ہیں : دو لڑ کے (محمد رضوان اور محمد ریحان) اور ایک لڑکی (فرح ناز)۔ محمد یوسف کے انتقال کے وقت ان کے یہ رشتے دار زندہ تھے : بیوی(انیسہ بیگم) ، دو بیٹیاں (عابدہ بیگم اور عاصمہ بیگم) ، دو پوتے (محمد رضوان،محمد ریحان) ، ایک پوتی (فرح ناز) ، دو بھائی (محمد قمر، محمد رفیق) ، دو بہنیں (نجمہ بیگم ، سلطانہ بیگم) ۔ محمد یوسف نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی اور اسے رجسٹر کرا دیا تھا کہ اس کی پراپرٹی میں سے اس کی بیوی کو %25 اور دونوں بیٹیوں کو %50 (ہر بیٹی کو %25) دے دیا جائے ۔ %5 اس کی بہو اور دونوں پوتوں اور ایک پوتی (بیٹے محمد شفیع کی بیوہ اور بچوں) کو باقی %20 دے دیا جائے ۔ جب وراثت تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا تو محمد یوسف کے بھائی محمد رفیق کی بیوی نے اس پر اعتراض کیا ۔ معاملہ عدالت میں پہنچا ۔ عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق وراثت میں بہو، پوتے اور پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔
براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا عدالت کا یہ فیصلہ درست ہے؟ کیا مسلم پرسنل لا میں بہو ، پوتے اور پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا؟ اگر دادا ان کے حق میں وصیت کر جائے تو بھی انھیں کچھ نہیں ملے گا؟
جواب:
اسلامی شریعت میں ورثہ کے کئی گروپ (categories)ہیں:
(1) اصحاب الفرائض: جن کے حصے قرآن وحدیث میں متعین کر دیے گئے ہیں۔
(2) عصبہ: جن کا حصہ متعین نہیں۔ وراثت اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ انھیں ملے گا اور اگر اصحاب الفرائض نہ ہوں تو کل وراثت انھی میں تقسیم ہوگی۔ عصبہ کی ایک ترتیب ہے، مثلاً بیٹا، پوتا، باپ، دادا، سگا بھائی، وغیرہ۔ قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں دوٗر کے رشتے دار کو کچھ نہ ملے گا۔
(3) ذوی الارحام: جو نہ اصحاب الفرائض میں سے ہوں،نہ عصبہ میں سے۔
وراثت تقسیم کرنے سے قبل دیکھا جاتا ہے کہ میت پر کوئی قرض تو نہیں ہے اور اس نے کوئی وصیت تو نہیں کی ہے ۔ اگر قرض ہے تو پہلے اسے ادا کیا جائے گا اور وصیت ہے تو اسے نافذ کیا جائے گا ، بعد میں وراثت کی تقسیم ہوگی ۔ وصیت کے تعلق سے دو باتیں ضروری ہیں: اول یہ کہ جن رشتے داروں کو وراثت میں حصہ ملتا ہے ان کے نام وصیت نہیں کی جاسکتی ۔ دوم یہ کہ وصیت کل مالِ وراثت کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی ۔
محمد یوسف صاحب نے اگر چہ وصیت رجسٹرڈ کرائی تھی ، لیکن اس میں سے جتنی ورثہ کے نام سے تھی ، وہ مسلم پرسنل لا کی روٗ سے معتبر (Valid) نہیں ہوگی ، البتہ بہو وارث نہیں ہے اس لیے اسے شریعت کی رو سے حسب وصیت ملے گا ۔ چناں چہ یوسف صاحب کے پورے ترکے میں سے پہلے وصیت کیا ہوا %5 الگ کرکے ان کی بہو کو دے دیا، اس کے بعد وارثوں میں بچا ہوا ترکہ تقسیم ہوگا ۔ یوسف صاحب کے انتقال کے وقت ان کے یہ ر شتے دار زندہ تھے : بیوی (انیسہ بیگم)، دو بیٹیاں (عابدہ بیگم اور عاصمہ بیگم)، دو بھائی (محمد قمر اور محمد رفیق)، دو بہنیں (نجمہ بیگم اور سلطانہ بیگم)، دو پوتے (محمد رضوان اور محمد ریحان) اور ایک پوتی (فرح ناز)۔ ان میں بیوی اور بیٹیاں اصحاب الفرائض میں سے ہیں اور پوتے، پوتی، بھائی اور بہن عصبہ میں سے ۔ عصبہ میں پوتے کی موجودگی میں بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا اور پوتی کو پوتے کے ساتھ 2: 1کے تناسب سے وراثت ملے گی ۔ ان کے درمیان بچے ہوئے مالِ وراثت کی تقسیم بہ اعتبارِ ذیل ہوگی :
ا۔ بیوی (انیسہ بیگم) کو آٹھواں حصہ (%12.5) ملے گا۔ (النساء: 21)
2۔ دو بیٹیوں (عابدہ بیگم ا ور عاصمہ بیگم) کو دوتہائی حصہ(%66.7) ملے گا۔ (النساء: 11)
3۔ باقی مالِ وراثت (%20.8) دو پوتوں اور ایک پوتی کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ پوتی کو %4.2 اور ہر پوتے کو8.3% ملے گا۔(النساء: 11)
یہ جو مشہور ہے کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق دادا کے مال وراثت میں پوتوں پوتیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ، اس کا اطلاق اس صورت پر ہوتا ہے جب دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو ۔ اگر کوئی بیٹا زندہ نہ ہو اور پوتے پوتیاں موجود ہوں تو وہ ان کے قائم مقام ہوں گے اور وراثت میں حصہ پائیں گے ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ،جنوری 2023 ]