قومی

بلقیس بانو کیس: مرکزی حکومت سے بھی لی گئی رضامندی، قصورواروں کی رہائی پر گجرات حکومت

قصورواروں کی رہائی پر گجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل کیا جواب

بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی پر آج منگل کو ہونے والی سماعت سے پہلے گجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے رہائی کی مخالفت کرنے والی درخواستوں کو خارج کرنے کی مانگ کی ہے۔

اس نے کہا ہے کہ رہائی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہوئی ہے۔ درخواست گزار ایسے لوگ ہیں جن کا اس مجرمانہ کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی طرف سے مفاد عامہ کی عرضی داخل ہونا قانونی عمل کا غلط استعمال ہے۔

گجرات حکومت نے بتایا ہے کہ اس سال 13 مئی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ان لوگوں کی رہائی کے لئے 1992 میں بنی پرانی پالیسی لاگو ہوگی۔ اس پالیسی میں 14 سال جیل میں گزارنے کے بعد عمر قید سے رہا کرنے کا انتطام ہے۔ یہ سبھی لوگ 14 سال سے زیادہ جیل میں رہے ہیں۔ اس لیے، ضروری قانونی کارروائی پر عمل کرنے کے بعد ان کی رہائی کی گئی۔

معاملے میں پی آئی ایل داخل ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے گجرات حکومت نے کہا ہے کہ یہ قانون کا غلط استعمال ہے۔ کسی باہری شخص کو مجرمامہ معاملے میں دخل دینے کا حق قانون نہیں دیتا۔ سبھاشنی علی اور دوسرے درخواست گزاروں کا کوئی اخلاقی حق متاثر نہیں ہورہا، جس سے وہ پی آئی ایل داخل کرسکیں۔

کن لوگوں سے ہے سیاسی تعلق؟
درخواست گزاروں کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر غلط الزام لگائے ہیں۔ یہ تک کہا ہے کہ ان لوگوں کو ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ پروگرام کے تحت چھوڑا گیا ہے۔ جب کہ، رہائی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پوری قانونی کارروائی پر عمل کر کے ہوئی ہے۔

کیا ہے معاملہ؟
15 اگست کو بلقیس بانو کے معاملے کے مجرموں کی رہائی ہوئی تھی۔ سی پی ایم لیڈر سبھاشنی علی، سماجی کارکن روپ ریکھا ورما، ریوتی لال اور ترنمول کانگریس کی لیڈر مہووا موئترا نے اس رہائی سے جڑے گجرات حکومت کے حکم کو خارج کرنے کی مانگ کرتے ہوئےس پریم کورٹ میں درخواست داخل کی۔ 25 اگست کو سابق چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس اجئے رستوگی اور وکرم ناتھ کی بنچ نے اس پر نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے 2 ہفتے بعد معاملے کی سماعت کی بات کہی۔

(نیوز ایجنسی)

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button