ایک مسئلہ ، دو فیصلے: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

پہلا فیصلہ :
ایک طالبہ نے اپنے وکیل کے ذریعے ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن داخل کی کہ وہ جس میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرتی ہے اس کی انتظامیہ اسے حجاب کے ساتھ کالج کیمپس میں داخل نہیں ہونے دے رہی ہے _ عدالت کالج انتظامیہ کو ہدایت دے کہ وہ اسے حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے ، یا اس کا ٹرانسفر کسی اور کالج میں کردے ، جہاں وہ اپنے مذہب کی ہدایات پر عمل کے ساتھ تعلیم جاری رکھ سکے _ طالبہ نے یہ بھی کہا کہ اسے بُرقع پہننے پر اصرار نہیں ہے _ وہ بس یہ چاہتی ہے کہ گاؤن پہنے اور سر پر اسکارف لگائے ، اس کے ساتھ وہ دوسرے اسٹوڈنٹس کی طرح ایپرن استعمال کرے گی _ فریقین کی باتیں اور دلائل سننے کے بعد ڈویژن بینچ نے کالج انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ مسلم طالبہ کو گاؤن اور ہیڈ اسکارف پہننے دے _ عدالت نے یہ بھی کہا کہ طالبہ کو کسی دوسرے کالج میں ٹرانسفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے _ وہ اسی کالج میں گاؤن اور اسکارف کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتی ہے _
یہ بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے ، جو 15 مارچ 2018 کو آیا تھا _
دوسرا فیصلہ :
کچھ طالبات نے ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن داخل کی کہ وہ جس کالج میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اس کی انتظامیہ انہیں حجاب کے ساتھ کالج کیمپس میں داخل نہیں ہونے دے رہی ہے _ عدالت کالج انتظامیہ کو ہدایت دے کہ وہ انہیں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے _ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے فیصلہ سنایا کہ قرآن میں حجاب کے احکام لازمی نہیں اختیاری ہیں ، کالجوں کی انتظامیہ کو حق ہے کہ وہ یونی فارم متعین کریں اور مسلم طالبات کو حجاب اور اسکارف پہننے کی اجازت نہ دیں _
یہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے ، جو کل 15مارچ 2022 کو آیا ہے _
دونوں فیصلے ہندوستان کی ہائی کورٹس کے ہیں _ ایک ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے مذہبی آزادی کو تسلیم کیا ، بنیادی حقوق کی ضمانت دی اور ملکی دستور میں دیے گئے تحفظات کے حصول کو یقینی بنایا _ دوسری ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے نہ صرف بنیادی حقوق اور دستوری تحفظات کی من مانی تشریحات کیں ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حجاب کے قرآنی احکام کے بارے میں یہ تک کہنے کی جسارت کر بیٹھے کہ یہ احکام بنیادی اور لازمی نہیں ، بلکہ اختیاری اور سفارشی ہیں _ اس لیے مذہبی آزادی کا حوالہ دے کر حجاب پہننے پر اصرار نہیں کیا جاسکتا _
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہی مسئلے میں عدالتوں کے فیصلے کتنے مختلف ہوسکتے ہیں؟ ان میں کتنی جانب داری برتی جاسکتی ہے؟ اور ان کے پسِ پردہ کتنے عوامل اور محرّکات کارفرما ہوتے ہیں؟!