اپنی ذات میں ایک دبستان تھے ” شعر العجم” کے خالق، شمس العلماء شبلی نعمانی- امان ذخیروی

جموئی (محمد سلطان اختر ) ہندوستان کے معروف عالم دین، صاحب طرز ادیب، بے مثال سیرت نگار، سونح نگار، مورخ، خوش فکر شاعر، محقق اور اردو زبان و ادب کے اولین ناقدین میں سے ایک علامہ شبلی نعمانی کے یوم وفات 18 نومبر کے موقعے پر بزم تعمیر ادب ذخیرہ، جموئی کے زیر اہتمام ماسٹر محمد ارشاد عالم خان المعروف ارشد ذخیروی کے دولت کدے پر انہیں کی صدارت میں ایک یادگاری نشست منعقد کی گئی۔
بزم کے جنرل سیکرٹری اور معروف شاعر امان ذخیروی نے علامہ شبلی نعمانی کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں اپنی ذات میں ایک دبستان قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علامہ شبلی نعمانی کا شمار ملک کے ان صاحب کمال میں ہوتا ہے جنہوں نے پورے عرب و عجم میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ایک وقت میں اتنے سارے کمالات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کی ولادت اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 3 جون 1857ء میں غدر کے زمانے میں ہوئی۔
آپ کے والدین نے آپ کا نام شبلی رکھا، جبکہ آپ کے استاد مولانا فاروق چریاکوٹی نے آپ کا لقب نعمانی رکھا۔ مولانا شبلی نے شاعری میں اپنا تخلص تسنیم رکھا تھا۔ آپ کے والد کا نام شیخ حبیب اللہ تھا، جو ایک نامور تاجر تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں ہی ہوئی اور مزید تعلیم کے لئے مدرسہ عربیہ اعظم گڑھ میں داخل ہوئے۔ 1876ء میں آپ نے اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ اس وقت آپ کی عمر 19 سال تھی۔ آپ نے اپنی عملی زندگی کی شروعات تجارت سے کی جو ان کا آبائی پیشہ تھا۔ پھر کچھ دنوں تک وکالت کا پیشہ بھی اختیار کیا، لیکن خدا نے آپ کو کسی مخصوص کام کے لئے پیدا کیا تھا۔
بالآخر انہوں نے یہ سب چھوڑ چھاڑ کر سرسید احمد خان کی پکار پر علی گڑھ کا قصد کیا اور 1883ء میں محمڈن اینگلو عربک اورینٹل کالج میں عربی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے آپ کی تحقیقی و تصنیفی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1892ء میں آپ نے پروفیسر آرنالڈ کے ساتھ ترکی، شام اور مصر کا دورہ کیا، جہاں خلافت عثمانیہ نے آپ کو تمغہء مجیدیہ سے سرفراز کیا۔ آپکے علمی و ادبی کمالات کے اعتراف میں حکومت برطانیہ نے شمس العلماء کا خطاب عطا کیا۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ دارالمصنفین کے قیام کی کوشش تھی جسے آپ کی رحلت کے بعد آپ کے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی نے مکمل کیا۔ آپ کی مشہور تصنیفات میں الفاروق، سوانح مولانا روم، علم الکلام، المامون، موازنہ انیس و دبیر، شعر العجم، الغزالی ، سیرت انعمان اور سیرت النبی کی دو جلدیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ 18 نومبر 1914ء کو اعظم گڑھ میں آپ کا انتقال ہوا