آنکھیں تلاش کرتی ہیں انساں کبھی کبھی (حضرت مولانا محمد عثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ): ظفر عبد الرؤف رحمانی

ظفر عبد الرؤف رحمانی
جنرل سکریٹری رحمانی فائونڈیشن ، مونگیر
امارت شرعیہ ہندوستانی مسلمانوںکی دل کی دھڑکن ہے، جسے بزرگوںنے خون جگر سے سینچا ہے، ہزاروں اہل ایمان کے خلوص ، محبت، محنت، جرأت، عزیمت اور خدمات کا یہ ثمرہ ہے، شجر سایہ دار ہے، جو دھوپ کی تمازت ، زمانے کے سردو گرم ، کلفت ومشقت اور کٹھن راہوں سے گذر کر ہم جیسے سیاہ کاروں تک یہ نعمت پہونچی ہے۔
کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن
جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن
’’امارت شرعیہ‘‘ کی عمارت کی بنیادوں میں مخلصین میں ایک بڑا نام حضرت مولانا مفتی عثمان غنی صاحبؒ کا ہے، جو قلم کے دھنی، علم کے ماہر ، عزم کے پیکر، عمل سے آراستہ، فکر میں گہرائی، نظر میں گیرائی، زبان پُر اثر، سیاست پر نظر، نظامت، فقاہت ،صحافت ، خطابت ،کتابت ، جرأت وعزیمت ، خلو ص ومحبت ، خدمت وعظمت ، جہد مسلسل ، عمل پیہم کے بحر بیکراں تھے، وہ تنہا مجمع تھے، جماعت تھے، وہ چمن تھے، باغ وبہار تھے، مجلس تھے، انجمن تھے، وہ عثمان غنی تھے، حقیقتاً عثمان غنی کے عکس جمیل تھے۔
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہؤا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انساں کبھی کبھی
ایک شخصیت اتنی خوبیوں کا پیکر ہو، یہ بات ہم جیسوں کے لیے حیرت کا باعث ہے، مگر جن نگاہوں نے ارباب امارت کی جانفشانیوں کی داستانیں دیکھی ہیں، ان پاک طینت اہل دل کی زبان ونظر کو نقارۂ خدا کا مظہر پایا ہو، کہ جب وہ لوگ اخلاص کے جذبوںسے سرشار ہوکر رضائے الہی کے چشموں میں غوطہ زن ہوتے ہیں، تو پانی کا قطرہ گوہر کمیاب بن جاتا ہے، فاصلے مٹ جاتے ہیں، وقت میں وسعت ہوتی ہے، قلت میں کثرت اور کثرت میں قدرت کا نظارہ ہوتا ہے، خدمت میں نکھار، عوام میں وقار اور زمین پر اس کے اثرات نظر آتے ہیں، اور صدیوں بعد بھی اس مرد مجاہد کی فکری، عملی، ملی، سماجی، دنیوی اور دینی خدمات پر شکریہ کے پھول برسائے جاتے ہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت مولانا محمد عثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا، اور وہ دور بھی ایسے اکابرین کا تھا، کہ افراد سازی اور کردار سازی پر لوگ مخلصانہ اور مسلسل کام کرتے تھے، آ پ اندازہ لگائیے کہ سولہ سترہ سال کی عمر میں عموماً لوگ عملی اعتبار سے کسی تحریک کا محرک نہیں ہوتا، مگر انہوں نے ایک پختہ کار شخصیت کے مانند حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ جیسی باوقار شخصیت کو اپنا محور فکر بنایا، جن کی عملی گیرائی، فکری وسعت، اور سیاسی بالائی سے کون واقف نہیں ہے، جن کی تحریروںکا پڑھنا ، پڑھ کر سمجھنا اور سمجھ کر سنبھلنا بھی سب کے بس کی بات نہیں۔
حضرت مولانا محمد عثمان غنیؒ ان کی تحریک سے وابستہ ہوگئے، ہجوم کا حصہ نہیں،جماعت کے رہبر بن گئے، نوجوانی کی توانائی پر علم وبردباری کی چادر ڈالدی، فکر مندی پر ہوشمندی کا لگام کس لیا، اور شاہراہ منزل پر رب کریم پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے قدم جما دیئے، اور زمانے نے دیکھا کہ جمعیت الانصار اور مؤتمر الانصار کا اجلاس کتنا کامیاب ،مؤثر اور حوصلہ افزا رہا، اور حضرت مولانا محمد عثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور قابلیت کی جانب اکابرین کا دل متوجہ ہؤا، ایک گمنام پتھر بیش قیمتی ہیرا بن کر زمانے کو روشنی پھیلانے کے لیے تیار ہوگیا، اور جذبہ خدمت کا ایسا شہرہ ہؤا کہ اسی کم عمری میں حضرت مولانا اس وفد کا حصہ بنائے گئے، جسے دارالعلوم نے جنگ طرابلس اور بلقان کے لیے بہار کے دورہ پر بھیجا تھا۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد اپنے وطن گیا آگئے، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے فاصلہ ہؤا، مگر اللہ کو کام لینا تھا، آپ پر حضرت مولانا ابو المحاسن محمدسجادؒ کی نگاہ پڑی اور امارت شرعیہ کی بنیادوں کے کتبہ پر نور تن علماء کرام میں ایک نام حضرت مولانا محمد عثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی کندہ ہوگیا۔
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنادیا
جس دل کو تو نے دیکھ لیا دل بنادیا
بندۂ مومن کا دل جب انسانی خدمت کے لیے سرشار ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے خدمت کی شاہراہوںپر چلا دیتا ہے،حضرت مولانا ؒ سے بھی اللہ کو کام لینا تھا، وہ خوش نصیب تھے، انہیں امارت شرعیہ کی نظامت ملی، اور وہ ناظم اول بنے، نوجوانی کی حرکت اور اخلاص عمل کی برکت نے حضرت مولانا سے خوب خدمت لی، وہ دوسری تنظیموں میں بھی سرگرم رہے، جمعیت علماء ہند کی تحریکوں کو جلا بخشتے رہے، عہدوںکو زینت بخشا، جذبوں کی آبیاری کی، خدمت کا چشمہ بہاتے رہے، اور امارت شرعیہ کو تناور درخت بنانے میں مگن رہے، آج کا یہ سایہ دار درخت ان کی نظامت کا مرہون ہے۔
اللہ نے آپ کو انتظامی خوبیوں کے ساتھ پڑھنے لکھنے کا اچھا ذوق بھی دیا تھا، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کی مؤمنانہ فراست کے راز داں بھی تھے، انہوں نے امارت شرعیہ کی ترجمانی کے لیے ’’امارت‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ مجلہ جاری کیا، جس میں حکومت وقت کی اسلام مخالف مہم کو اجاگر کرتے، عوام کو حکومت کے ارادوں سے آگاہ کرتے، حکومت کے نقصاندہ سیاسی فیصلوں کی تنقید اور تجزیہ کرتے ، جس سے حکومت وقت کی پیشانی پر خم آنے لگا، حضرت مولانا پر مقدمہ ہؤا، جیل گئے، جرمانہ دیا، مگر حضرت مولانا بے خوف بولتے رہے، جم کر لکھتے رہے، نوبت یہ آئی کہ حکومت نے آپ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا، پھر جیل گئے، رہا ہوئے، اور ایک ہزار کا جرمانہ آپ پر عائد ہؤا، جسے امارت شرعیہ ادا نہ کرسکی، اور ’’امارت ‘‘ نامی مجلہ بند کرنا پڑا، مگر
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
آئین جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضرت مولانا عثمان غنیؒ نے امارت کی جگہ ’’نقیب‘‘ کے نام سے ترجمان شائع کرنا شروع کردیا، اور مصلحتاً اپنا نام ادارت سے ہٹالیا، ذرا سونچئے! کہ بزرگوںنے کس کسم پرسی کے عالم میں ان اداروں کو بنایا ہے، کیسی مالی مشکلات کا سامنا تھا، کہ ہزار روپیہ امارت شرعیہ ادا نہ کرسکی، اور مجلہ بند کرنا پڑا، اور جائزہ لیجئے، آج کی سہولتوں کا اور اندازہ کیجئے ہماری خدمات واثرات کا۔
کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں
بس یہ اک بات خداداد ہے پروانے میں
حضرت مولانا ؒ امارت شرعیہ کے ناظم تھے، مگر وہ خادم تھے، مدیر تھے، مگر دفتر کی دربانی بھی کرتے رہے، مقرر تھے، جنگ آزادی میں سرگرم تھے، مگر معمولی سپاہی رہے، علم کے عوج تھے، مگر سادہ لوح نقیب رہے، سیاست کے ماہر تھے،مگر حاشیہ پر رہے، خدمت میں غرق تھے ،مگر دنیا کی طلب سے دور رہے،باوقار وپربہار تھے، مگر عہدے کے رعب سے جد ارہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا کو لوگوںنے ہر رنگ میں دیکھا، ہر آہنگ میں پرکھا، ہر شعبہ میں پایا، وہ ہمیشہ ہر میدان میں رہے نمایاں، امارت شرعیہ کے لیے جب جس عہدہ کی ضرورت پڑی مولانا ؒ اس میں ڈھل گئے، حضرت مولانا شاہ محمد عباسؒ کے انتقال کے بعد حضرت مولانا ؒ نے دارالافتاء کی ذمہ داری اپنے ذمہ لیا، ان کے فتاوی کی نقل امارت شرعیہ میں محفوظ ہے، جسے دیکھ کر ان کے تبحر علمی اور فقہی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے اور فقہ وفتاویٰ کی یہ خدمت انہوںنے مسلسل پچاس سالوں تک انجا دی، جو اپنے آپ میں ان کی علمی مرتبت کی علامت ہے۔
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ اکسٹھ سالوں تک جمعیت علماء ہند سے سرگرم وابستہ رہے، اخیر عمر تک امارت شرعیہ کی خدمت انجام دیتے رہے،گھر میں رہتے ہوئے بھی، امارت شرعیہ، ملی تنظیموں کو نوازتے رہے، اب وہ نہیں ہیں، ہم نے انہیں نہیں دیکھا ہے، لیکن امارت کے درو دیوار پر ان کی خدمات کے نمایاں نقوش موجود ہیں، اور ہم لوگ اس سمینار میں ان کے ذکر خیر کے لیے موجود ہیں، اللہ ان کے مرقد کو ریاض الجنۃ کا حصہ بنائے (آمین)
بہت ہی مختصر۔۔۔۔۔ کہانی ہے
زندگی کچھ بھی نہیں فانی ہے
٭٭٭٭