قومی

آسام میں مسلمانوں کی آبادی 35 فیصد ہے،اب انہیں اقلیت میں شمار نہیں جاسکتا، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما

گوہاٹی،16؍مارچ (ہندوستان اردو ٹائمز) آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آسام میں 35 فیصد مسلمان ہیں اور انہیں اب ’اقلیت‘ میں شمار نہیں کیاجا سکتا۔ آسام قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے کہاکہ آج مسلم کمیونٹی کے لوگ اپوزیشن میں لیڈر ہیں، وہ ایم ایل اے ہیں اور ان کے پاس یکساں مواقع اور طاقت ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبائلی عوام کے حقوق کی حفاظت کریں۔

 

انہوں نے کہاکہ چھٹے شیڈول کے علاقے میں رہنے والے قبائلیوں کی زمین پر کسی کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بورا اور کلیتا زمین پر آباد نہیں ہیں تو مسلم کو بھی ان زمینوں میں آباد ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ طاقت ذمہ داری کے ساتھ آتی ہے اور چونکہ آسام کی آبادی میں35 فیصد مسلمان ہیں۔ اس لیے یہاں اقلیتوں کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔ آسام کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کی ثقافت اور تہذیب کو مزید نقصان نہ پہنچے۔

 

سرما نے کہاکہ اب مسلمانوں کو ثقافت کے تحفظ کی بات کرنی چاہیے۔ کیونکہ اب ان کی آبادی ہم سے زیادہ ہے۔ دس سال پہلے تک ہم اقلیت میںنہیں تھے، لیکن اب ہم اقلیت میں شامل ہو گئے ہیں۔اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کشمیری ہندوؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سرما نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آسام کے لوگوں کا وہی حشر ہوگا جو کشمیری پنڈتوں کا ہوگا؟ دس سال بعد، کیا آسام کا وہی حال ہوگا جیسا کہ بالی ووڈ میں دکھایا گیا ہے۔ فلم ’دی کشمیر فائلس‘ ہمارے ڈر کو دور کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔ مسلمان اکثریت کی طرح برتاؤ کریں اور ہمیں یقین دلائیں کہ کشمیر جیسا یہاں نہیں ہوگا۔

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button