انصاف کا آغاز اپنی ذات سے کیجیے : فتح محمد ندوی

کچھ باتیں جن کا سننا بڑا تلخ اور طبیعت کے لیے بڑا ناگوار ہوتا ہے۔در اصل جب کوئی بات اپنی ذات سے متعلق انسان کے سامنے آتی ہے اور اس کی انا ۔ عمل اور طبیعت کو چیلنج کرتی ہے تو پھر وہ قطعی طور پر اس بات کو سننے پر نہ وہ خود آمادہ ہوتا نہ طبیعت اس کو سننا گوارا کرتی ہے۔خیر بات تھی انصاف کے آغاز کی اپنی ذات سے شروع کر نے کی اور اس بات کا احتساب کرنے کی کہ ہم بحیثیت ایک ذمہ دار یا عام آدمی کے کتنے منصف اور امانت دار ہیں۔کتنا عد ل و انصاف ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کررہے ہیں۔ مثلاً اگرآپ گھر کے بڑے اور ذمدار ہیں تو اہل خانہ کے لیے کتنے منصف ہیں۔ آپ اگر شوہر ہیں تو بیوی بچوں کے حوالے سے آپ کا معیار انصاف کیا ہے؟اگر آپ گاؤں یا کسی دیگر سماجی تنظیم کے نگران ہیں تو آپ کا رعایا اور ماتحتوں کے ساتھ برتاؤ اور انصاف کا معاملہ کیسا ہے۔ اگر مدرسہ کے ذمہ دار ہیں تو طلبہ اور مدرسین کے ساتھ آپ کا انصاف کے بارے کیا سلوک ہے۔ اگر مدرس ہیں تو بچوں اور وقت کے بارے میں آپ کتنے حساس ہیں۔ اگر کسی قومی خزانے کے ذمہ دار ہیں تو بیت المال میں تصرف کے حوالے سے کتنے فکر مند ہیں۔اور اس میں انصاف کے حوالے سے کتنے حساس اور امانت دار ہیں۔
”عدل کے مشہورمعنی انصاف کے ہیں،یعنی اپنوں اوربیگانوں کے ساتھ انصاف کیاجائے،کسی کے ساتھ دشمنی یاعناد یامحبت یاقرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں،ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں،یعنی کسی معاملہ میں افراط یاتفریط کاارتکاب نہ کیاجائےگویاعدل کی بنیاددوچیزوں پرہے:ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اورتناسب قائم ہو،دوسرایہ کہ ہرایک کواس کاحق صحیح طریقہ پردیاجائے۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”عدل: اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی برابر کرنے کے ہیں اسی کی مناسبت سے حکام کا لوگوں کے نزاعی مقدمات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ عدل کہلاتا ہے قرآن کریم میں اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ اسی معنی کے لئے آیا ہے اور اسی لحاظ سے لفظ عدل افراط تفریط کے درمیان اعتدال کو بھی کہا جاتا ہے اور اسی کی مناسبت سے بعض ائمہ تفسیر نے اس جگہ لفظ عدل کی تفسیر ظاہر وباطن کی برابری سے کی ہے یعنی جو قول یا فعل انسان کے ظاہری اعضاء سے سرزد ہو اور باطن میں بھی اس کا وہی اعتقاد اور حال ہو اور اصل حقیقت یہی ہے کہ یہاں لفظ عدل اپنےعام معنی میں ہے جو ان سب صورتوں کو شامل ہے جو مختلف ائمہ تفسیر سے منقول ہیں ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں اور ابن عربی نے فرمایا کہ لفظ عدل کے اصلی معنی برابری کرنے کے ہیں پھر مختلف نسبتوں سے اس کا مفہوم مختلف ہو جاتا ہے. فتویٰ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن۔ /
اس مذکورہ اقتباس کے تناظر میں مفسر ین نے عدل کے مختلف معنی لیے ہیں۔یہ لفظ اپنے تنوع اور مفہوم کے اعتبار سے بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ عظیم مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادی نوراللہ مرقدہ قرآن کی سورہ النحل کی آیت نمبر نوے میں لفظ با لعدل کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔: عدل سے مراد قوائے علمی و عملی میں اعتدال و توسط۔ عقائد و اعمال۔ اخلاق و معاملات سارے شخصی مامورات اس کے اندر آگئے۔
مختصر طور پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام السلام نے جس سماج کی طرح ڈالی تھی اس میں عدل و انصاف کے نفاذ میں کوئی تفریق۔ کوئی حصار درمیان میں حائل نہیں تھا۔ اپنے بیگانے امیر غریب مسلم غیر مسلم سب کے لیے قانون یکساں تھے۔ کوئی قانون سے استثناء اور بالاتر نہیں تھا۔۔۔ایک مرتبہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک چوری کے مقدمے میں فاطمہ مخزومیہ کی لوگوں کے کہنے پر اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی کی سفارش فرمائی۔ آپؐ نےفاطمہ مخزومیہ کے حوالے سے فرمایا کہ کیا تم ایک عورت کی اس لیے سفارش کرتے ہو کہ وہ بڑے خاندان کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔ اب حضورؐ سے بڑا خاندان کس کا ہو سکتا ہے لیکن نبی کریمؐ نے یہ تعلیم دی کہ جرم کی سزا یکساں ہے چاہے کسی بڑے خاندان کا فرد جرم کرے یا کسی چھوٹے خاندان کا۔ معاشرے میں عدل قائم ہوگا تو مساوات کا ماحول پیدا ہوگا“۔) ابو عمار زاہد الراشدی صاحب کے مضمون سے اقتباس)
ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عادل اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قریب ترین انسان ہے۔ اور ظالم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے دور ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ سب سے پہلے اللہ تعالی کے سایہ کے نیچے کون جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس بات کا زیادہ علم ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے جب حق آجائے تو فوراً قبول کر لیتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو مال کو خرچ کر تے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا عادلانہ کرتے ہیں جیساکہ وہ اپنے لیے کرتے ہیں۔( معارف القرآن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدل وانصاف کی اس تعلیمات پر ہم کتنا عمل پیراں ہیں۔ اس پر سنجیدگی سے غور کیجیے۔ سوچیے۔ احتساب کیجیے۔ پھر انصاف سے فیصلہ کیجیے۔تو مطلع صاف ہوجائے گا کہ ہم کتنے منصف اور عادل ہیں۔ حقوق کی ادائیگی کے تعلق سے۔انفرادی اور اجتماعی معاملات کے تعلق سے۔ بحیثیت حاکم اور ذمہ داری کے تعلق سے۔ امانتوں کے تحفظ کے حوالے سے اسی طرح گھر سے لیکر سماج تک۔ عزیز و اقارب سے لیکر دوست و احباب۔ عام تعلق اور آس پاس کے لوگوں تک آپ کا قول و فعل کتنا انصاف پسند اور معتدل ہے۔ اس میں تضاد۔ دوہرا پن یا عدم توازن تو نہیں۔اگر ہے تو آپ سراسر ظلم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ کیونکہ عدل کے مقابلے میں۔ ظلم کا لفظ آتا ہے۔ اور ظلم کہتے ہیں کسی کا حق دبالینا۔ کسی کے ساتھ نا انصافی کرنا۔ کسی کو نا حق ستانا۔ لغوی معنی میں وضع الشئی فی غیر محلہ۔ کسی چیز کو اس کے مقام کے بجائے دوسری جگہ پر رکھنا۔ ظلم کہلاتا ہے۔ اور کسی چیز کو اس کے محل پر رکھنا عدل کہلاتا ہے۔
اس سچائی کے باوجود بہت سی باتیں اور بہت سے معاملات میں یقیناً ہمارا معیار انصاف بدلا بدلا سا دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے لوگ اور احباب اس حقیقت کو اگر چہ تسلیم نہیں کریں گے۔ کہ ہم بہت سے معاملات میں آج انصاف کے حوالے سے عدم توازن کا شکار ہیں۔ بلکہ ناانصافی کے مرتکب ہیں۔ کیا اس عہد میں ایک مہتمم اپنے عملے کے ساتھ۔ گھر کا ذمہ دار اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدرس بچوں کے ساتھ۔ امیر غریب کے ساتھ۔حاکم محکوم ساتھ وغیرہ وغیرہ انصاف کا معاملہ کررہا ہے۔لا محالہ اس حقیقت کا سچائی کے ساتھ عنوان یہ ہوگا کہ ہم کوتاہی کے مرتکب بلکہ مجرم ہیں۔