
نئی دہلی ،27ستمبر (ہندوستان اردو ٹائمز) شیوسینا کے ادھو ٹھاکرے کیمپ کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پارٹی کے نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کارروائی روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھو دھڑے نے مطالبہ کیا تھا کہ ایم ایل اے کی نااہلی کے فیصلے سے قبل الیکشن کمیشن پارٹی کے نشان کی سماعت نہ کرے، لیکن سپریم کورٹ نے اسے ٹھکرا دیا ہے۔
ادھو دھڑے کے وکیل کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی نے اصرار کیا کہ پارٹی کے انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے سلسلے میں الیکشن کمیشن میں جاری کارروائی کو روکا جانا چاہیے۔ کپل سبل نے دلیل دی کہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور ان کے دھڑے کے ایم ایل ایز کی نااہلی کا معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔ایسے میں اس پر کوئی فیصلہ کیے بغیر الیکشن کمیشن کو حقیقی فریق کے بارے میں فیصلہ لینے سے روک دیا جائے۔سینئر وکیل نیرج کشن کول نے شندے دھڑے کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے انتخابی نشان کے بارے میں فیصلہ اس کے پاس دستیاب حقائق کی بنیاد پر کرتا ہے، یہ کمیشن کا آئینی کام ہے۔ اس سے اسے روکنا نہیں چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل اروند داتار نے کہا کہ کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ اسے روکا نہ جائے۔ کمیشن یہ نہیں دیکھتا کہ کون ایم ایل اے ہے اور کون نہیں۔ صرف پارٹی ممبر ہونا کافی ہے۔مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیوسینا کے ایم ایل ایز کی بغاوت اور اس کے بعد چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے کے استعفیٰ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں زیر التوا ہیں۔ ان درخواستوں میں شندے کیمپ کے 16 ایم ایل ایز کو نااہل قرار دینا، گورنر کی جانب سے ایکناتھ شندے کو حکومت بنانے کی دعوت، ایوان میں نئے اسپیکر کے انتخاب کا غلط عمل جیسے کئی مسائل اٹھائے گئے ہیں۔23 اگست کو سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں 3 ججوں کی بنچ نے اس معاملے کو 5 ججوں کی بنچ کو بھیج دیا۔
تب عدالت نے کہا تھا کہ آئینی بنچ پہلے یہ فیصلہ کرے گی کہ شیوسینا کے انتخابی نشان سے متعلق دونوں دھڑوں کے دعوے پر الیکشن کمیشن کو اپنی کارروائی جاری رکھنی چاہئے یا نہیں۔ اس کے بعد عدالت نے کمیشن کو اپنی کارروائی روکنے کو کہا۔خود کو حقیقی شیو سینا بتاتے ہوئے ایکناتھ شندے کے دھڑے نے الیکشن کمیشن سے پارٹی کا انتخابی نشان خود کو الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کمیشن نے اس پر ادھو ٹھاکرے کے دھڑے سے جواب مانگا تھا، لیکن جواب دینے کے بجائے، انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتی سماعت کے باعث کمیشن کی کارروائی تعطل کا شکار ہوگئی۔ اب الیکشن کمیشن اس معاملے پر فیصلہ کر سکے گا۔