آپ عالمہ بنی ہیں تو آپ کو عمل کرنے والی بھی بننا ہے،معہد عائشہ صدیقہؓ قاسم العلوم للبنات میں ختم بخاری کے موقع پر مولانا ندیم الواجدی کا خطاب

دیوبند، 16؍ فروری (رضوان سلمانی) آج ایک سادہ مگر پُر وقار تقریب میں معہد عائشہ صدیقہؓ قاسم العلوم للبنات دیوبند کے وسیع ہال میں معہد کے ناظم اور ممتاز عالم دین مولانا ندیم الواجدی نے بخاری شریف کا آخری درس دیا، اس سال معہد میں (۳۰) تیس طالبات دورۂ حدیث شریف میں شریک رہیں، مولانا ندیم الواجدی نے تدوین حدیث کی ضرورت واہمیت اور اس سلسلے میں محدثین کی کوششوں پر روشنی ڈالی، انھوں نے کہا کہ امام بخاریؒ نے نہ معلوم کس قدر اخلاص کے ساتھ یہ کتاب لکھی تھی، جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس عظیم کتاب کو وہ مقبولیت عطا فرمائی کہ مخلوق خدا کی کتابوں میں جس کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو جو شہرت عطا فرمائی اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، امام بخاریؒ نے اس کتاب کے تراجم ابواب مسجد نبوی کے ریاض الجنۃ میں اور احادیث خانۂ کعبہ کے سائے میں سولہ سال کی مدت میں اس شان سے لکھیں کہ ہر ترجمۃ الباب لکھنے سے پہلے اور اس ترجمے کے تحت مطلوبہ حدیث درج کرنے سے قبل دو رکعت نماز ادا کی، آج امت کا سواد اعظم اس کتاب کی صحت پر اتفاق رکھتا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جو شخص اس کتاب کی عظمت کا قائل نہ ہو وہ مسلمانوں کی راہ سے ہٹا ہوا ہے، مولانا نے بخاری شریف کی آخری حدیث پر سیر حاصل بحث کی،اس موقع پر مولانا نے فن حدیث کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حدیث رسول شریعت اسلامیہ کا اہم ماخذ ہے انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم کے بیان کردہ احکامات کی تفصیل احادیث رسول کے ذریعہ ہی ہوتی چنانچہ قرآن کریم میں طہارت کے بارے میں حکم آیا ہے لیکن یہ نہیں بتلایا گیا کہ کس طرح طہارت حاصل کی جائے گی اس کا حکم ہمیں حدیث رسول سے ملے گا۔انہوں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ یہ بات سمجھائی کہ قرآن کریم اسلامی احکام کو اجمالی طور پر بیان کرتا ہے جبکہ احادیث رسول اس کی تفصیل کرتی ہیں۔ انھوں نے طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں سے عالمہ بن کر جارہی ہیں، یاد رکھئے علم حاصل کرنا اور عالم بننا نہ کوئی بڑا کمال ہے اور نہ یہ اصل مقصد ہے، علم تو شیطان کے پاس سب سے زیادہ ہے، اسی طرح بہت سے یہودی اور عیسائی اسلامی علوم میں بڑی بڑی اونچی اونچی ڈگریاں رکھتے ہیں، حدیث اور تفسیر میں ان کی موٹی موٹی کتابیں ہیں، مگر وہ سب بے کار ہیں، کیوں کہ ان کے ساتھ ایمان اور عمل کی دولت نہیں ہے، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ علم سے اصل مقصود عمل ہے، اگر عمل نہ ہو تو علم بے کار ہے، آپ عالمہ بنی ہیں تو آپ کو عمل کرنے والی بھی بننا ہے، جو کچھ آپ نے پڑھا ہے جو کچھ آپ نے یہاں سیکھا ہے اس پر عمل کریں، اور دوسروں کو بھی سکھلائیں۔
مولانا نے کہا کہ اب تک تو آپ اس مدرسے کی چہار دیواری میں تھیں جو کچھ اچھا برا آپ کررہی تھیں اس پر آپ کی معلمات کی نگاہ تھی اب آپ عالمہ بن کر اپنے گھر واپس جارہی ہیں، اپنے گھر سے دوسرے گھر بھی جائیں گی، آپ کے گھر والے، عزیز رشتہ دار، سہیلیاں، محلے والے، گاؤں بستی والے، سسرال والے سب آپ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں گے، آپ کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ علم دین کی دولت سے مالا مال ہیں، آپ میں تواضع وانکساری ہونی چاہئے، بردباری ہونی چاہئے، نماز کی پابندی کریں، آپ کا رہن سہن آپ کا لباس، آپ کی بول چال سب پر اسلام کا رنگ غالب ہو، یاد رکھیں اگر آپ نے ذرا بھی غفلت برتی تو لوگ آپ کو نام رکھیں گے، اور آپ کی وجہ سے علم دین بھی بدنام ہوگا آپ کا یہ مدرسہ بھی جہاں آپ نے اتنا وقت گزاراہے بدنام ہوگا، آپ کی معلمات آپ کے اساتذہ، آپ کے والدین سب پر حرف آئے گا، اس لیے آپ کو چاہئے کہ آپ کی آنے والی زندگی خواہ وہ آپ کے والدین کے گھر میں گزرے یا شوہر کے گھر میں ، اتباع سنت اور شریعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہونی چاہئے۔ آپ تو اب یہاں سے رخصت ہونے والی ہیں، ایک بات میں دوسری طالبات سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس وقت کو نہایت قیمتی سمجھیں، ان کے والدین نے انھیں اپنے آپ سے جدا کرکے محض علم دین حاصل کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے، وہ آپ کے لیے محنت کرتے ہیں، آپ کی ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں، اگر آپ نے محنت نہ کی اور سارا وقت یونہی گزار دیا تو ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا اور آپ یہاں سے خالی ہاتھ واپس جائیں گی۔ مولانا نے کہا کہ والدین سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی اصلاح حال کا جائزہ لیتے رہیں، اس دور کا سب سے بڑا فتنہ بے پردگی ہے، اس میں بڑی کوتاہی ہورہی ہے، پردے کا اہتمام ہونا چاہئے، شریعت نے جس طرح پردے کا حکم دیا ہے اس طرح پردہ کیا جائے جن لوگوں سے پردے کا حکم دیا ہے ان سے پردہ کیا جائے، اس کی ذمہ داری والدین پر ہے، خاص طور پر ماں پر وہ ہی ہر وقت اپنی بیٹیوں کے قریب رہتی ہے۔اس خطاب کے بعددارالعلوم زکریا دیوبند کے استاذ حدیث مفتی منتظر حسین نے پوری دلسوزی اور رقت کے ساتھ دعا کرائی، اس تقریب میں معہد کی مدیرہ محترمہ عفت ندیم صاحبہ، معہد کی معلمات، طالبات اور بیرون دیوبند کی سینکڑوں خواتین نے شرکت کی۔