عجیب و غریبقومی

آسام میں کم عمری کی شادی کا خوف : والدین کی گرفتاری کے ڈر سے بیٹی کی خودکشی

ریاست آسام کے رہائشی خالد الرشید بولنے سے پہلے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی 23 سالہ بیٹی کلثوم نے 4 فروری کو اپنی جان لے لی۔چار بچوں میں سب سے بڑی کلثوم کی 14 برس کی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ 2020 میں کووڈ کے سبب شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر رہنے آ گئی۔

خالد نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ لیکن جب اس نے پچھلے ہفتے کم عمری کی شادیوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے تحت گرفتاریوں کے بارے میں سنا تو گھبرا کر خود کشی کر لی۔جمعے کو کلثوم نے اپنے والد سے میرج سرٹیفیکیٹ کے بارے میں پوچھا تھا۔

وہ بتاتے ہیں ’میں نے اس سے کہا کہ اس کا شوہر اب زندہ نہیں ہے، اسے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘ لیکن کلثوم کو ڈر تھا کہ پولیس اس کے والدین کو گرفتار کر لے گی۔

خالد کہتے ہیں ’اس نے ہمیں بچانے کی خاطر خود اپنی جان لے لی۔‘آسام میں سینکڑوں خواتین اپنے رشتہ داروں کی گرفتاریوں کے بعد سے احتجاج کر رہی ہیں۔

گرفتار کیے گئے افراد میں نابالغ لڑکیوں کے شوہر، ان کے رشتے دار، شادی کرانے والے قاضی، پنڈت اور ان کے معاونین شامل ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلی نے کہا ہے کہ نا بالغ بچوں اور بچیوں کی شادی کے خلاف یہ مہم جاری رہے گی۔

اطلاعات کے مطابق پولیس کے پاس ایسے کم از کم 8100 افراد کے خلاف شکایت درج ہے۔انڈیا میں شادی کے لیے قانونی طور پر لڑکی کی عمر 18 اور لڑکے کی 21 برس ہونا لازمی ہے۔ ریاستی حکومت نے دو برس کے دوران ہونے والی شادیوں اور حاملہ عورتوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کے بعد یہ مہم شروع کی ہے۔

خاتون، سات ماہ کی حاملہ ہیں اور ان کے شوہر بھی ان ڈھائی ہزار مردوں میں شامل ہیں جنھیں گزشتہ دس برسوں میں اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے کے الزام میں گزشتہ دنوں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کم عمری کی شادیوں کے غیر قانونی عمل کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن خاتون جیسی ہزاروں عورتیں جن کے شوہر پولیس حراست میں ہیں، بے یار و مددگار محسوس کر رہی ہیں۔

شادی سے قبل خاتون کی زندگی آسان نہیں تھی، لیکن شادی کے بعد زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں آئیں تھیں۔

خاتون آٹھ برس کی تھیں جب ان کے والد نے دوسری شادی کر لی تھی۔ چند ماہ بعد ہی ان کی والدہ بھی انھیں ایک چھوٹے سے گاؤں میں ان کی پھوپھی کے پاس چھوڑ کر چلی گئیں۔ خاتون کہتی ہیں ’وہاں میری زندگی بہت مشکل تھی۔ میرے ساتھ اس گھر میں ایسا سلوک ہوتا تھا جیسے میں بوجھ تھی۔‘

گزشتہ برس ان کی پھوپھی کے خاندان نے ان کی شادی کرانے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت ان کی شادی ہوئی وہ محض سترہ برس کی تھیں اور بے پناہ ڈری ہوئی تھیں۔

خاتون بتاتی ہیں ’ہمیں ہمیشہ بتایا جاتا ہے کہ ہماری آنے والی زندگی کیسی ہوگی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں کیسا شوہر ملے گا۔ میں کم عمر تھی اور اس بات سے خوفزدہ تھی کہ اگر میرا شوہر برا شخص نکلا تو کیا ہوگا۔‘

لیکن یعقوب علی ایسے نہیں نکلے۔ خاتون کی شادی یعقوب سے ہوئی جو کہ ایک کاشتکار ہیں۔ وہ خاتون کے حق میں ایک بے حد رحم دل شخص ثابت ہوئے۔

خاتون بتاتی ہیں ’ہم غریب ہیں، ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں لیکن ہم کم از کم پر سکون زندگی جی رہے تھے۔‘

لیکن یہ خوشیان زیادہ دن ان کے پاس نہیں رکیں۔

4 فروری کو علی کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف الزام ہے کہ جس وقت انھوں نے خاتون سے شادی کی اس وقت خاتون نابالغ تھیں۔

ایک ہفتہ گزر گیا، لیکن علی اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔ خاتون سات ماہ کی حاملہ ہیں اور گرفتاری کے بعد سے اپنے شوہر سے مل نہیں سکی ہیں۔

وہ پوچھتی ہیں ’میں کہاں جاؤں؟ وہ ہی میرا واحد سہارا ہیں۔ میں اور میرا بچہ بھوکے مر جائیں گے۔‘

خاتون اور ان جیسی دیگر خواتین ان اقدامات کو ان کی زندگیوں میں ظالمانہ مداخلت کے طور پر دیکھتی ہیں۔ گرفتار ہونے والے افراد بیشتر غیر تعلیم یافتہ اور غریب طبقے کے افراد ہیں۔ ان کے خاندان روزی روٹی کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جس میں متاثرہ خاندانوں کی خواتین کو پولیس سٹیشن کے باہر احتجاج کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

علی جیسے ہزاروں مردوں کو کم عمری میں شادی کرنے کے خلاف قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے چودہ سے اٹھارہ برس کی لڑکیوں سے شادیاں کیں۔ اس قانون کے تحت نا بالغ لڑکی سے شادی کے جرم میں دو سال سزا اور جرمانہ دینا پڑ سکتا ہے۔

جن افراد کی شادی 14 برس سے کم عمر کی لڑکی سے ہوئی انھیں تعزیرات ہند کے انتہائی سخت قانون پاکسو کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جس کے تحت سات برس تک قید یا عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے معاملوں میں ضمانت بھی ممکن نہیں۔

جن ڈھائی ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک غیر جانبدار اور سیکولر ایکشن ہے۔ اس میں کسی مخصوص برادری کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔‘

انھوں نے اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اب تک جنھیں گرفتار کیا گیا ہے ان میں 58 فی صد مسلمان اور 42 فیصد ہندو ہیں۔

انڈیا میں مسلم پرسنل لا بلوغت کے بعد کبھی بھی لڑکی کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ انڈیا کا چائلڈ میرج ایکٹ اٹھارہ سے کم عمر لڑکی کی شادی کی اجازت نہیں دیتا۔

ان گرفتاریوں کے بعد پرسنل لا اور چائلڈ میرج ایکٹ میں تنازع کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جار ہا ہے۔

تھنک ٹینک ودھی لیگل کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈارکٹر ارگھیا سین گپتا کا کہنا ہے کہ ’ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں سپیشل لا کو کسی مذہب کے پرسنل لا کے اوپر ترجیح دی جاتی ہے۔‘

لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس صورت حال میں متاثرین کے ساتھ حالات کی ناانصافی کو بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا ’مسلم پرسنل لا لڑکیوں کو بلوغت پر پہنچنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی سے بھی شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے اب اچانک ان کے شوہر کو اس بات کے لیے جیل میں بند کر دینا جو کبھی ان کی نظر میں غلط تھی ہی نہیں، بھلے قانونی طور پر غلط ہو‘ لیکن ان کے ساتھ ناانصافی ہو سکتی ہے۔‘

ہیمنت بسوا شرما کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کم عمری میں شادیوں کے خلاف ہے، ان کا ہدف کوئی خاص برادری نہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں بھارتی جنتا پارٹی کی جانب سے پسماندہ اقلیتوں کو دبانے کی ایک اور کوشش ہے، خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلمان۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کی گرفتاریوں کے نتیجے میں لوگ چھپ کر شادیاں کرنے لگیں گے۔ ایسے میں ان کا پتا چلنا اور بھی زیادہ مشکل ہوگا۔

ایمسٹرڈیم کی ورائیہ یونیورسٹی میں لیکچرر اور ریسرچر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کہتے ہیں ’کم عمری میں شادی مذہبی سے زیادہ ایک سماجی خرابی ہے، اور اس کی جڑیں غربت اور پدرانہ نظام میں ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’برادریوں کی سماجی اور معاشی ترقی کے ذریعے ہی اس عمل کو صحیح معنی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایک برادری کو واضح طور پر ہدف بنا کر نہیں۔‘

غیر قانونی ہونے کے باوجود انڈیا کے مختلف علاقوں میں کم عمری میں شادیاں عام ہیں۔ اس کی اہم وجہ پدرانہ نظام، تعلیم کی کمی اور غربت ہے۔ تاہم ان میں سے بہت کم ہی معاملوں کے خلاف رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کلام کہتے ہیں کہ آسام میں زیادہ تر کم عمر کی شادیاں پسماندہ طبقے میں دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن انہیں کم کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں ایک بڑی سماجی مہم بھی چلی ہے۔

اب حکومت کی طرف سے اس قسم کی سختی اس مہم کو کمزور کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ’ہمارا سماج اس قدر تقسیم ہو چکا ہے کہ اس قسم کے ظالمانہ اقدامات کی لوگ حمایت کرنے لگے ہیں۔‘

عبد الزمان ایک وکیل ہیں اور آسام کے ڈھبری ضلع میں آٹھ خواتین مظاہرین کا کیس لڑ رہے ہیں۔

ڈھبری مسلم اکثریت والا علاقہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔

زمان کہتے ہیں ’ایک عام تاثر یہ ہے کہ کم عمری میں شادی کرنا مسلم سماج کا مسئلہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈھبری میں کم عمری میں شادیاں اس لیے زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ یہ آسام کے سب سے غریب اضلاع میں سے ایک ہے جہاں بیشتر خاندانوں کے پاس تعلیم نہیں ہے، نہ کہ اس لیے کہ یہاں مسلمان رہتے ہیں۔‘

ان کا الزام ہے کہ حکومت خواتین کی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک سماجی مسئلے کو مذہبی رنگ دے رہی ہے۔

حالانکہ اس کارروائی میں مسلمان ہی نہیں ہندو بھی گرفتار کیے گئے ہیں لیکن زمان کا دعویٰ ہے کہ انہیں ضمانت دینے میں بھی تفریق برتی جا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا ’مجولی میں اکثریت قبائلی برادیوں کی ہے۔ وہاں چوبیس افراد کو ایک دن کے اندر ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ جب ہم نے انھیں دلائل کے ساتھ مسلمان مردوں کی ضمانت کا مطالبہ کیا، تو انہیں ضمنات نہیں دی گئی۔‘

بی بی سی نے مجولی میں ضمانت پر رہا ہونے والوں کے کاغذات دیکھے۔ ضمانت کے آرڈر پر لکھا ہے کہ انہیں ’مبہم اور ناکافی بنیادوں‘ پر گرفتار کیا گیا تھا۔

زمان کہتے ہیں کہ حکومت نے متاثرہ خواتین کی مشکل کم کرنے کے لیے انھیں ہرجانے کی رقم ادا کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس سے ان کی تکلیف کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی۔

خاتون کو بھی یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ ’کسی شوہر اور اس کی اہلیہ کے درمیان جذباتی بندھن کا کیا؟ حکومت خواتین کو اس کی تلافی کیسے کرے گی؟

وہ پوچھتی ہیں ’کیا عورت کی زندگی سے تکلیف کبھی ختم نہیں ہوگی؟

(بی بی سی کے شکریہ کے ساتھ)

 

 

ہماری یوٹیوب ویڈیوز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button